قومی خبریں

یو پی میں بچہ چوری کی افواہ سے پولس کی جان ہلکان، عوام سے تعاون کی اپیل

اس طرح کی افواہیں مذہبی ہم آہنگی کے لئے بھی خطرہ بن رہی ہیں  اس لئے پولس اب بچہ چور کی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بات کر رہی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز 

مغربی اتر پردیش کے کچھ اضلاع میں بچے چوری کی افواہوں کی وجہ سے پولس کی جان ان دنوں ہلکان بنی ہوئی ہے۔ افواہیں کی روز افزوں بڑھتی تعداد کے بعد اہل خانہ نے اپنے بچوں کو گھر سے نکلنے پر روک لگا دی ہے۔ پولس بار بار افواہوں پر کان نہ دھرنے کی اپیل کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں درجنوں تھانہ انچارجوں نے اپنے علاقہ کے لوگوں سے ان افواہوں سے نمٹنے کے لئے تعاون طلب کیا ہے۔

Published: undefined

بچہ چوری کی افواہوں کا مرکز میرٹھ اور اس سے ملحقہ علاقے ہیں۔ بالخصوص مظفرنگر، سہارنپور، باغپت، شاملی، میرٹھ اور غازی آباد سب سے زیادہ متاثر نظر آ رہے ہیں۔ بروز پیر (26 اگست) کو مظفرنگر اور شاملی ضلع میں دن بھر بچہ چوری کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ کچھ مشتبہ افراد کو لوگوں نے پکڑا بھی لیکن بعد میں یہ سب محض افواہیں ہی ثابت ہوئیں۔ لوگ بچہ چوری کی افواہوں سے اتنے مشتعل ہو چکے ہیں کہ کئی مقامات پر غیر واقف کار لوگوں کی بری طرح پٹائی کر دی گئی۔

Published: undefined

کھتولی کے بھینسی گاؤں میں گاؤں والوں نے ایک مشتبہ عورت کو پکڑ کر پولس کو سونپ دیا۔ بھینسی گاؤں کے راجو اہلاوت کے مطابق گاؤں میں ایک جاگرن (ہندو مذہبی تقریب) کے دوران ایک غیر واقف کار عورت کچھ بچوں سے بات کر رہی تھی، اس کے بعد ونش، ساگر، شیوم اور وپل نامی چار بچے غائب ہو گئے۔ دیہاتیوں نے عورت سے بات چیت کی اور شک ہونے پر اسے پولس کو سونپ دیا۔ حالانکہ بعد میں وہ چاروں بچے مل گئے۔ کھتولی کے کوتوال نورتن گوتم کے مطابق ’خاتون راجستھان کی رہائشی ہے اور ذہنی طور پر معذور ہے‘۔

Published: undefined

تصویر قومی آواز

اس سے پہلے باغپت میں بچہ چور کی افواہ کے بعد ایک باہری شخص پروین کمار کی لوگوں نے لنچنگ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہاں پر ڈاکٹر شکیل احمد نے اپنی جان پر کھیل کر پروین کی جان بچا لی تھی اور علاقہ کو کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے بچا لیا۔ پروین کی بھی بچہ چور ہونے کی تصدیق نہیں ہو پائی۔

Published: undefined

شاملی ضلع کے جھنجھانا میں بھی بچہ چوری کی افواہ کے درمیان تین لوگوں کو بری طرح زد و کوب کیا گیا۔ تینوں متاثرہ افراد سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلہیڑا گاؤں میں کسی نے ان کو بچہ چور ہونے کی افواہ پھیلا دی اور بھیڑ ان لوگوں کو بری طرح پیٹنے لگی۔ آناً فاناً میں پولس موقع پر پہنچی اور تینوں کی جان بچائی۔ تینوں نوجوان مختار سنگھ، گرنام سنگھ اور مکھن سنگھ سے بعد میں بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ گرودوارے کے لئے اناج اکٹھا کرنے کے لئے آئے تھے۔ شاملی کے ایس پی اجے کمار کے مطابق جھنجھانا میں کہیں بھی بچہ چوری ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

Published: undefined

ان افواہوں سے پریشان ہونے کے بعد پولس نے باقاعدہ رہنما ہدایات جاری کیے اور لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں پر دھیان نہ دیں۔ مظفرنگر اور شاملی ضلع کے کئی تھانہ علاقوں میں پولس نے لوگوں کے ساتھ اس حوالہ سے میٹنگ بھی کی ہے۔ میرانپور، چرتھاول، اور پھوپا سمیت کئی تھانوں کی طرف سے کسی بھی مشتبہ شخص کے نظر آتے ہی پولس کو اطلاع دینے کی اپیل کی گئی ہے۔

Published: undefined

بے شک پولس ان تمام واقعات کو محض افواہ قرار دے رہی ہو لیکن عام لوگوں میں اس کو لے کر تشویش پائی جا رہی ہے۔ جیسے میرانپور کے جاوید نے کہا کہ دوپہر کے وقت اس کے گھر کی تیسری منزل پر ایک غیر واقف عورت نظر آئی۔ اس نے کہا کہ وہ فقیر ہے لیکن اسے پہلے کبھی علاقہ میں نہیں دیکھا گیا تھا۔

Published: undefined

لتا دیوی کے مطابق وہ ہفتہ بھر سے محلہ میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہی ہیں جنہیں انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ لتا دیوی نے اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کی تاکید کی ہے۔

Published: undefined

ان افواہوں کے درمیان نظم و نسق کی صورت حال بگڑنے کا بھی خدشہ ہے، کیوں کہ اس طرح کی افواہ وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں جیسے کالا بندر، چڑیل، منہ نوچوا، چوٹی کٹوا اور بلیڈ مار کے نام پر علاقہ میں کئی مرتبہ دہشت پھیل چکی ہے۔

Published: undefined

موبائل اور انٹرنیٹ کے اس زمانہ میں افواہوں کو پھیلنے کے لئے نئے مقام مل گئے ہیں، وہاٹس ایپ کے ذریعے لوگ ہر جھوٹی سچی خبر کو پھیلا دیتے ہیں۔ کچھ مقامات پر مشتبہ لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کرنے والوں کو بھی پولس نے جیل بھیجا ہے۔ مثال کے طور پر میرٹھ کے کٹھور میں اسی ہفتہ کچھ لوگوں نے بچہ چوری کا الزام لگا کر ایک شخص کی پٹائی کی تھی، ان میں سے 8 لوگوں کو پولس نے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ یہ افواہیں مذہبی ہم آہنگی کے لئے بھی خطرہ بن رہی ہیں، پولس اب بچہ چور کی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بات کر رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined