
تصویر: ویڈیو گریپ
راجستھان کے پالی ضلع کے رانی قصبے میں جمعہ کی شام اس وقت شدید کشیدگی پھیل گئی جب مویشی پالنے والے اور ڈی این ٹی برادری کے لوگ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے تھے۔ قومی شاہراہ 162 پر احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہو گئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغے، جب کہ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ بھی کیا گیا۔
Published: undefined
یہ احتجاج مویشی پروروں کی تنظیم ’راشٹریہ پشو پالک سنگھ‘ اور ڈی این ٹی سنگھرش سمیتی کی جانب سے کیا جا رہا تھا۔ مظاہرین روزگار، ریزرویشن اور معاوضہ جیسے مطالبات کو لے کر سڑک پر بیٹھ گئے اور ٹریفک جام کر دیا۔ انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین سے کئی دور کی بات چیت ہوئی لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جیسے ہی حالات بگڑنے لگے، مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا جس سے کچھ اہلکار زخمی ہو گئے اور علاقے میں افراتفری پھیل گئی۔
Published: undefined
پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہجوم کو شاہراہ سے ہٹا دیا۔ ٹریفک کو متبادل راستوں سے گزارا گیا تاکہ عام لوگوں کو کم سے کم دقت ہو۔ انتظامیہ نے بتایا کہ حالات اب قابو میں ہیں، تاہم علاقے میں اضافی پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے تاکہ کسی نئے تصادم سے بچا جا سکے۔
احتجاجی مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اب تک ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ قومی صدر لال سنگھ دیواسی کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک میں مویشی پالنے والوں کے لیے روزگار کے مواقع، ذات پر مبنی ریزرویشن اور پچھلی مالی نقصانات کا معاوضہ جیسے بنیادی مطالبات شامل ہیں۔
Published: undefined
اے ایس پی وپن شرما نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس حالات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے اور مظاہرین کے نمائندوں سے بات چیت جاری ہے تاکہ امن بحال رکھا جا سکے۔ ان کے مطابق جمعہ کی شام تک صورت حال معمول پر آچکی تھی، مگر احتیاط کے طور پر علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
پالی میں پیش آئے اس واقعے نے ایک بار پھر انتظامیہ اور احتجاجی گروہوں کے درمیان رابطے اور مفاہمت کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے مظاہرین کے مسائل پر بروقت توجہ دی ہوتی تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined