30 اکتوبر کی شام گجرات کے موربی شہر میں پل گرنے سے 140 افراد سے زیادہ ہلاک ہو نے کی خبر ہے ۔ اس پل کے حوالے سے لاپرواہی کی کئی رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ روز ایک اہلکار نے بتایا تھا کہ پل کی تزئین و آرائش کرنے والی نجی کمپنی نے حکومت سے اجازت لیے بغیر اسے دوبارہ کھول دیا ہے۔ ایک اور چونکا دینے والا انکشاف سامنے آیا ہے کہ تزئین و آرائش کے دوران پل کی تاریں تبدیل نہیں کی گئیں۔
Published: undefined
نیوز پورٹل اے بی پی مین شائع خبر کے مطابق این ڈی آر ایف کے علاوہ مسلح افواج، بحریہ، فضائیہ کے اہلکاروں کی ٹیمیں بچاؤ آپریشن میں مصروف ہیں۔پل گرنے کے واقعے میں پہلی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ اس میں لاپرواہی سے موت کے الزامات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کیس میں گزشتہ روز نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تعمیراتی فرم اوریوا گروپ، جسے 15 سال تک پل کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی تھی بھی تفتیش کے دائرے میں ہے۔کمپنی کے دو ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
Published: undefined
ادھر خبروں کے مطابق موربی میونسپلٹی کے چیف آفیسر سندیپ سنگھ جھالا نے کہا کہ حکومت کو پل کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں علم نہیں تھا۔ کمپنی نے فٹنس سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا تھا اور نہ ہی حکومت سے پل کو دوبارہ کھولنے کی اجازت مانگی تھی۔ حکام کے پاس تزئین و آرائش کے دوران استعمال ہونے والے مواد کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں ہیں۔
Published: undefined
پورٹل پر شائع خبر کے مطابق این ڈی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں ایک اور چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب اوریوا فرم نے سات ماہ تک اس پل کی تزئین و آرائش کی تھی تو پل کے کچھ پرانے کیبل تاروں کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔ گجرات کی اوریوا فرم کو مارچ میں ٹھیکہ دیا تھا اور کنٹریکٹ دستاویزات کے مطابق کوئی ٹینڈر جاری نہیں کیا گیا۔
Published: undefined
حادثے کے بعد سے اپوزیشن بھی مرکزی حکومت پر حملہ آور ہے۔ تاہم جب راہل گاندھی سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس واقعہ پر سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس پر سیاست نہیں کرنا چاہتے۔
Published: undefined
پانچ رکنی ٹیم واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ یہ حالیہ دنوں کی بدترین آفات میں سے ایک ہے۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں 40 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ حادثے میں کئی خاندان اجڑ گئے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined