قومی خبریں

کملیش تیواری کی فیملی بار بار لے رہی بی جے پی لیڈر کا نام، کیوں نہیں ہو رہی کارروائی!

اتر پردیش کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ جس طرح سے ڈی جی پی نے اس معاملے کو سلجھانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی جلد بازی دکھائی جا رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

کملیش تیواری قتل معاملہ میں پولس نے اپنا پورا دھیان ایک ہی طرف لگا رکھا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اس نے صرف ایک کڑی کو پکڑ کر تفتیش شروع کر دی ہے۔ حالانکہ کملیش تیواری کی فیملی بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ اس قتل معاملہ میں آپسی رنجش کا شبہ ہے اور اس کے لیے انھوں نے مقامی بی جے پی لیڈر شیو کمار گپتا کا باضابطہ نام بھی لیا تھا۔ یہاں حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ پولس سالوں پہلے مسلمانوں کے ذریعہ دی گئی دھمکی کو سامنے رکھ کر جانچ کی کارروائی آگے بڑھا رہی ہے اور شیو کمار گپتا پر جو کملیش کی ماں اور اس کے بھتیجے نے الزام لگایا ہے، اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST

ہندی نیوز پورٹل ’بی بی سی‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں اتر پردیش کے سینئر صحافی سبھاش مشرا کا ایک بیان شائع کیا ہے جو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی پولس صحیح سمت میں کارروائی کر رہی ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’جس طرح سے ڈی جی پی نے اس معاملے کو سلجھانے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی جلد بازی دکھائی جا رہی ہے۔‘‘

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST

سبھاش مشرا اس سلسلے میں مزید کہتے ہیں کہ ’’ڈی جی پی کے بیان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جانچ کو ایک خاص سمت میں موڑنے کی کوشش ہو رہی ہے جب کہ کملیش تیواری کے گھر والوں کے الزام سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے میں آپسی رنجش اور زمینی تنازعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اس طرح کی خبریں میڈیا میں کملیش تیواری قتل کے بعد سے ہی آنے لگی تھیں کہ ان کے گھر والوں نے ایک مقامی مندر کے تعلق سے تنازعہ کو اس قتل کی وجہ بتایا ہے۔ گھر والوں نے کہا تھا کہ مندر اور اراضی تنازعہ کی وجہ سے مقامی بی جے پی لیڈر شیو کمار گپتا سے ان کے معاملات خراب چل رہے ہیں۔

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST

قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کے ڈی جی پی کا کہنا ہے گجرات اے ٹی ایس اور یو پی پولس کی مدد سے جو لوگ ابھی گرفت میں آئے وہ صرف سازش میں شامل بتائے جا رہے ہیں۔ جبکہ کملیش تیواری قتل کرنے والے دو مشتبہ لوگوں کی پولس تلاش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں یو پی پولس نے انعام کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ یو پی پولس کا کہنا ہے کہ مشتبہ ملزمان اشفاق اور معین الدین پٹھان فرار ہیں جن کو گرفتار کرانے والوں کو ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST

بہر حال، کملیش تیواری کی ماں کسم تیواری کا بیان انتہائی اہم ہے جنھوں نے بار بار میڈیا سے یہ بات کہی کہ اس قتل کے پیچھے بڑی سازش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بار بار کملیش نے جان کو خطرہ بتایا اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا لیکن ان کی حفاظت دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی۔‘‘ بتایا جا رہا ہے کہ کملیش تیواری گزشتہ ایک سال سے اپنی سیکورٹی کو لے کر وزیر اعلیٰ کو کئی بار خط بھی لکھ چکے تھے، لیکن اس پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST

کملیش تیواری کی ماں نے ریاستی حکومت کو بھی اس قتل معاملے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ کملیش کی جان کو جو خطرہ تھا، اسے ریاستی حکومت نے نظر انداز کیا۔ کسم تیواری کے اس الزام کو اس لیے بھی درست ٹھہرایا جا رہا ہے کیونکہ ایک ویڈیو پیغام میں بھی کملیش تیواری نے اپنی جان کو خطرہ بتایا تھا اور سیکورٹی نہ بڑھنے کے لیے واضح طور پر یوگی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ ویڈیو کملیش تیواری نے اپنے قتل سے کچھ ہی دنوں قبل جاری کیا تھا۔

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST

یہاں قابل غور یہ بھی ہے کہ کملیش تیواری کے بیٹے ستیم تیواری نے ڈی جی پی کے دعوے پر انگلی اٹھائی ہے۔ انھوں نے اس پورے قتل معاملے کی جانچ این آئی سے کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ قصورواروں کو سزا ملنی چاہیے۔ ستیم نے یو پی پولس پر بھروسہ نہ ہونے کی بات میڈیا کے سامنے بھی کہی۔ ستیم نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’مجھے نہیں پتہ ہے کہ جو لوگ پکڑے گئے ہیں انہی لوگوں نے میرے والد کو مارا ہے یا پھر بے قصور لوگوں کو پھنسایا جا رہا ہے۔ اگر واقعی میں یہی لوگ قصوروار ہیں اور ان کے خلاف پولس کے پاس ضروری ثبوت ہیں تو اس کی جانچ این آئی اے سے کرائی جائے کیونکہ ہمیں اس انتظامیہ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔‘‘

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 21 Oct 2019, 12:40 PM IST