
پریانک کھڑگے، تصویر آئی اے این ایس
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے گزشتہ روز دیے گئے بیان پر کرناٹک کے وزیر پریانک کھڑگے نے کہا کہ ’’موہن بھاگوت نے رضاکاروں کے ساتھ اپنے ایکو چیمبر میں جواب دیا۔ یہ غور کرنے لائق عمل ہے۔‘‘ پریانک کا کہنا ہے کہ اگر تنظیم لوگوں کا ایک گروپ ہے تو اس سے انہیں ٹیکس سے چھوٹ نہیں ملنا چاہیے بلکہ ان پر ٹیکس لگایا جانا چاہیے۔ انہیں کس بنیاد پر چھوٹ دی جا رہی ہے؟ انہوں سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ کل اگر میں آر ایس ایس کی طرح ہی لوگوں کا ایک گروپ بنا کر ’گرو دکشنا‘ لوں تو کیا محکمہ انکم ٹیکس اور حکومت اس سے متفق ہوں گے؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میں بھی اسے گرو دکشنہ ہی کہوں گا۔
Published: undefined
پریانک کھڑگے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رضاکاروں کو خطاب کرنے کا کیا مطلب ہے؟ ان کا پہلے سے ہی برین واش کیا جا چکا ہے۔ اگر انہیں اتنا بھروسہ ہے کہ وہ قانونی طور پر صحیح ہیں تو پورے آر ایس ایس کو ہمارے آئینی اور قانونی ماہرین کے ساتھ بحث کرنے دیں۔ اگر وہ بحث کرنا چاہتے ہیں تو آئیے اس کے لیے لہجے اور معیار طے کریں۔ آئیے ہم صرف ان چیزوں پر بحث کریں جو انہوں نے ’آرگنائزر‘ رسالہ میں شائع کیا ہے۔ آئین، قومی پرچم، جدوجہد آزادی اور جو کچھ بھی انہوں نے اپنے رسالہ ’آرگنائزر‘ میں شائع کیا ہے۔
Published: undefined
کانگریس لیڈر نے کہا کہ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنے طاقتور ہیں۔ وہ آئین سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں جب بھی بھگوان کو عطیے کیے گئے تو ایک ایک روپے کا حساب دیا گیا، تو کیا یہ لوگ بھگوان یا ہندوستان کے آئین سے اوپر ہیں؟‘‘ واضح رہے کہ بنگلورو میں ایک پروگرام کے دوران 9 نومبر کو آر ایس ایس کے سربراہ نے کہا کہ اگر ہم ہوتے ہی نہیں تو وہ کس پر پابندی عائد کرتے؟ ہر بار عدالتوں نے پابندی ہٹا دی اور آر ایس ایس کو ایک جائز تنظیم کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
Published: undefined
موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر ہم ایک تنظیم ہیں، اس لیے ہم غیر آئینی نہیں ہیں۔ کئی چیزیں رجسٹرڈ نہیں ہیں، یہاں تک کہ ہندو مذہب بھی رجسٹرڈ نہیں ہے۔ ساتھ ہی آر ایس ایس سربراہ نے کہا کہ اگر ہم نہیں ہوتے تو وہ کس پر پابندی عائد کرتے؟ موہن بھاگوت نے دعویٰ کیا کہ محکمہ انکم ٹیکس اور عدالتوں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ آر ایس ایس لوگوں کی ایک تنظیم ہے اور اسے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined