قومی خبریں

اراولی کو بچانے کے لیے ’ستیاگرہ‘ شروع کرنے کا اعلان، انڈین یوتھ کانگریس نے پوسٹر کیا لانچ

انڈین یوتھ کانگریس کے صدر اودے بھانو چب نے دعویٰ کیا کہ خبروں کے مطابق اراولی کی پہاڑیوں میں ابھی تک 50 نئی کانکنی کو اجازت مل چکی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>انڈین یوتھ کانگریس کے ذریعہ ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ کا پوسٹر جاری کیے جانے کا منظر، تصویر ’ایکس‘&nbsp;<a href="https://x.com/IYC">@IYC</a></p></div>

انڈین یوتھ کانگریس کے ذریعہ ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ کا پوسٹر جاری کیے جانے کا منظر، تصویر ’ایکس‘ @IYC

 

اراولی پہاڑی سلسلہ کو بچانے کا عزم لے کر آگے بڑھی انڈین یوتھ کانگریس نے آج ایک پریس کانفرنس کر ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ کے مقاصد سب کے سامنے رکھے۔ ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ شروع کرنے کا عزم پہلے ہی انڈین یوتھ کانگریس (آئی وائی سی) کے ذریعہ ظاہر کیا گیا تھا، اب آئی وی سی کے قومی صدر اودے بھانو چب نے پریس کانفرنس میں باضابطہ پوسٹر جاری کر یاترا کا رسمی اعلان کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ 1000 سے زائد کلومیٹر کی عوامی تحریک ہوگی، جو کہ 7 جنوری سے شروع کی جائے گی۔ یہ یاترا گجرات سے شروع ہو کر راجستھان اور ہریانہ ہوتے ہوئے دہلی پہنچے گی۔

Published: undefined

انڈین یوتھ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ یاترا صرف دوری طے کرنے کا پروگرام نہیں ہے، بلکہ اراولی کے تحفظ کا عزم مصمم ہے۔ یہ یاترا درخت، پانی، پہاڑ اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے ہوگی۔ کانگریس کی اس یوتھ وِنگ کے مطابق ’’اراولی کو بچانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے، اور اس ذمہ داری کو ہم ہر حال میں نبھائیں گے۔‘‘

Published: undefined

اس پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اودے بھانو چب نے کہا کہ ’’انڈین یوتھ کانگریس ’اراولی ستیاگرہ یاترا‘ نکالنے جا رہی ہے جو کہ 7 جنوری سے 20 جنوری تک چلے گی۔ یہ یاترا گجرات سے شروع ہوگی اور راجستھان، ہریانہ ہوتے ہوئے دہلی آئے گی۔‘‘ انھوں نے اس یاترا کے مطالبات بھی میڈیا کے سامنے رکھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس یاترا کے ذریعہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اراولی رینج پر 100 میٹر کا پینترا ختم کیا جائے، اراولی رینج کرٹیکل اکولوجیکل زون قرار دیا جائے، سپریم کورٹ کے حکم کا تجزیہ ہو، حکومت تجویز واپس لے، اور اراولی رینج میں کانکنی پر پوری طرح سے پابندی لگائی جائے۔‘‘

Published: undefined

مرکز کی مودی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انڈین یوتھ کانگریس کے قومی صدر نے کہا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے خود سپریم کورٹ کو تجویز بھیجی تھی کہ 100 میٹر سے کم اونچائی والے پہاڑ کو اراولی رینج سے ہٹا دیا جائے۔ پہلے سپریم کورٹ کی کمیٹی ہوتی تھی جو کانکنی کی نگرانی رکھتی تھی، لیکن مودی حکومت نے وہ کمیٹی تحلیل کر دی اور وزارت ماحولیات کے ذریعہ یہ تجویز بھیجی گئی۔‘‘ اودے بھانو چب یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ ’’خبروں کے مطابق اب تک 50 نئی کانکنی کو اجازت مل چکی ہے۔ 2010 میں سپریم کورٹ نے ان مائننگ کو ایکسٹینشن دینے سے روک دیا تھا، جو مائننگ اراولی کے پاس پہنچ گئی تھی۔ لیکن بی جے پی کی راجستھان حکومت نے کہا کہ اگر آپ کو ایکسٹینشن چاہیے تو فیس بھریے، اور پھر 2010 میں بند ہوئی کانکنی کو پھر سے اجازت دے دی۔‘‘

Published: undefined

اودے بھانو چب نے عدالت عظمیٰ کے احکام سے متعلق بتایا کہ ’’سپریم کورٹ کا جو حکم آیا ہے، اس میں لکھا گیا ہے کہ نئی کانکنی تبھی شروع ہو سکتی ہے، جب حکومت تجویز لائے۔ حکم میں مزید ایک بات لکھی گئی ہے کہ اراولی رینج میں اگر ’ریئر اَرتھ میٹل‘ ملے گا، تبھی ان کی کانکنی ہو سکتی ہے۔‘‘ یہ بات سامنے رکھنے کے بعد انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’’کیا اسے بھی مودی کے خاص دوست اڈانی کو سونپ دیا جائے گا؟ ہم یہ سوال پوچھ رہے ہیں کیونکہ انڈمان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کی مثال ہمارے سامنے ہے۔‘‘ میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک کا شہری ہونے کے ناطے ہم سوال پوچھیں گے اور انصاف کے لیے تب تک آواز اٹھاتے رہیں گے، جب تک ہمارے مطالبات قبول نہیں کر لیے جاتے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined