قومی خبریں

’کلائميٹ ايمرجنسی‘ کے ليے ہندوستانی نوجوان ميدان ميں اتر آئے

بھارت ميں گرمی کی لہريں اور پانی کی قلت عام ہوتی جا رہی ہيں۔ ايسے ميں تقريباً نصف ملين افراد نے ايسی دو مختلف پٹيشنز کی حمايت کی ہے، جن ميں حکومت سے ’کلائميٹ ايمرجنسی‘ نافذ کرنے کا مطالبہ کيا گيا ہے۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا  

سويڈن سے تعلق رکھنے والی گريٹا تھونبرگ سے متاثر ہونے والے سولہ سالہ بھارتی طالب علم امن شرما نے انٹرنيٹ کی ايک ويب سائٹ پر رواں سال مئی ميں ایک پٹيشن لانچ کی۔ شرما يہ محسوس کر رہے تھے کہ ہر سال گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے جبکہ خشک گرمی، آلودگی اور پانی کی قلت ميں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کوئی اس کے ليے کچھ نہيں کر رہا۔ يہی عدم توجہ اس نوجوان کے اس عمل کا سبب بنی۔ شرما نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ميں نے يہ مہم حکومت پر دباؤ ڈالنے کے ليے شروع کی ہے کيونکہ اگر ہم اب چپ رہے، تو مستقبل ميں بات ہماری بقا پر آن پہنچے گی۔‘‘ ان کی پٹيشن پر اب تک 170,000 افراد دستخط کر چکے ہيں۔

Published: undefined

شرما کا وزارت ماحوليات سے مطالبہ ہے کہ ملک ميں سر سبز و ہرے بھرے علاقے بڑھائے جائيں اور درجہ حرارت کو محدود رکھنے سے متعلق پيرس معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد يقينی بنايا جائے۔ فی الحال بھارتی وزارت برائے ماحول، جنگلات اور موسمياتی تبديليوں نے ان کے اس عمل پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا ہے۔

Published: undefined

ممبئی شہر سے تعلق رکھنے والے انسٹاگرامر جتيندرا شرما نے بھی اسی طرز کی ايک پٹيشن اسی ہفتے لانچ کی اور اب تک تين لاکھ افراد اس کی حمايت بھی کر چکے ہيں۔ ان کے بقول ان کی کوشش ہے کہ نئی دہلی حکومت 'کلائميٹ ايمرجنسی‘ نافذ کرے۔ جتيندرا کے مطابق يہ وقت کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

'کلائميٹ ايمرجنسی‘ در اصل ہے کيا؟

Published: undefined

'کلائميٹ ايمرجنسی‘ در حقيقت ايک اصطلاح ہے، جو اس ضمن ميں ہنگامی اقدامات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ماحول دوست کارکن چندرا بھوشن کے مطابق يہ ايسی صورتحال کو کہا جا سکتا ہے، جس ميں موسمياتی تبديليوں سے نمٹنے کو پاليسی و منصوبہ سازی ميں مرکزی اہميت حاصل ہو۔ رواں سال مئی ميں برطانوی وزير اعظم ٹريزا مے نے علامتی طور پر 'کلائميٹ ايمرجنسی‘ نافذ کرنے کا اعلان کر ديا تھا۔ اس وقت يورپ ميں کئی نوجوان اس ضمن ميں سرگرم ہيں اور عوامی سطح پر مظاہرے بڑھتے جا رہے ہيں۔

Published: undefined

ماحول دوست کارکن چندرا بھوشن کا کہنا ہے کہ ان پٹيشنز کا مطلب ہے کہ نئی دہلی حکومت کو يہ تسليم کرنا ہو گا کہ ہم بحرانی صورتحال سے دوچار ہيں۔ دہلی کے سينٹر فار سائنس اينڈ انوائرنمنٹ سے وابستہ بھوشن نے مزيد کہا، ''ہم مصيبت ميں ہيں۔ اگر بھارتی حکومت اب يہ بات تسليم نہيں کرتی، تو کچھ وقت لگے گا ليکن يہ انہيں سمجھ آ جائے گا۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined