قومی خبریں

مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر حنیف ترین کا انتقال، تدفین میں جمع ہوئی لوگوں کی بھیڑ

ڈاکٹر حنیف ترین نے جمعرات کی صبح قریب چھ بجے روالپورہ واقع اپنی رہائش گاہ پر داعی اجل کو لبیک کہا۔ مرحوم کے تجہیز و تکفین میں لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔

حنیف ترین، تصویر یو این آئی
حنیف ترین، تصویر یو این آئی 

سری نگر/نئی دہلی: عالمی اردو مجلس، دہلی کے صدر اور نامور شاعر و ادیب ڈاکٹر حنیف ترین جمعرات کی صبح یہاں راولپورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر علالت کے سبب انتقال کر گئے ان کی عمر 69 سال تھی مرحوم کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ، جو پیشے سے ایک ڈاکٹر ہیں، کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ بیٹوں میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا انجینئر ہے جبکہ بیٹی بھی پیشے سے ڈاکٹر ہے، ڈاکٹر حنیف ترین کا تعلق دراصل اتر پردیش کے ضلع سنبھل کے سرائے ترین علاقے سے تھا اور انہوں نے ایک کشمیری ڈاکٹر کے ساتھ نکاح کیا تھا اور ان دنوں سری نگر کے راولپورہ علاقے میں رہائش پذیر تھے۔

Published: undefined

خاندانی ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر حنیف ترین نے جمعرات کی صبح قریب چھ بجے روالپورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہوں نے بتایا کہ مرحوم کے تجہیز و تکفین میں لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی اور انہیں راولپورہ میں ہی ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ خاندانی ذرائع نے مزید بتایا کہ مرحوم کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے اور حرکت قلب بند ہونے سے ان کی موت واقع ہوئی ہے۔

Published: undefined

حنیف ترین کی رحلت سے ادب وصحافت دونوں حلقوں میں رنج والم کا ایک عمومی ماحول پایا جارہا ہے۔ ڈاکٹر موصوف عرصہ دراز تک بحیثیت طبیب سعودی عرب میں خدمات انجام دینے کے بعد واپس ہندوستان آ گئے تھے اور دہلی کو انہوں نے اپنا وطن بنا لیا تھا۔

Published: undefined

شعری محفلوں کے انعقاد اور ادب نواز حلقوں کو جوڑنے کے حوالے سے ان کی خدمات قابل ذکرہیں۔ حال کے دنوں میں ڈاکٹر حنیف ترین نے ایک سہ ماہی ادبی رسالہ کی اشاعت کا خواب بھی دیکھا تھا اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی ان کی کوششیں جاری ہی تھیں کہ اسی درمیان موذی مرض نے انھیں اپنے شکنجہ میں جکڑ لیا۔ ایک شاعر کے طور پر اردو کے عالمی افق میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے حنیف ترین جذباتی شاعری کے حوالے سے ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔

Published: undefined

فلسطین کی جدوجہد آزادی پر مشتمل ان کی نظم 'باغی سچے ہوتے ہیں' نے توان کو امر کر دیا۔ اس نظم میں جس بے باکانہ اندازمیں مظلوموں کے درد کو بیان کیا گیا تھا، وہ اپنے آپ میں مثالی تھا۔ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی فن کارانہ کوشش نہایت جرأت کے ساتھ انجام دی، جس کی گواہی ان کے شعری مجموعوں میں شامل درجنوں نظمیں اورغزلیں از خود دے رہی ہیں۔

Published: undefined

ان کی شاعری تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہے۔ 'رباب صحرا'، 'کتاب صحرا'، 'کشت غزل نما'، 'زمین لاپتہ رہی'، 'ابابیلیں نہیں آئیں'، 'زلزال'، 'روئے شمیم'، 'لالہئ صحرائی'، 'پس منظر میں منظر بھیگا کرتے ہیں' اور 'دلت کویتا جاگ اٹھی' موصوف کے وہ شعری مجموعے ہیں، جن میں ان کی فکر وفن کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔

Published: undefined

حال کے دنوں میں انہوں نے ہندی شاعری کی طرف بھی توجہ دی اور نتیجتاً 'ستیہ میوجیتے' اور 'دلت آکروش' کی شکل میں دو کتابیں منظر عام پر آئیں۔ علاوہ ازیں ظہیرغازی پوری کی شخصیت اور فن کو سمجھنے کے لیے 'ظہیرغازی پوری: شخص، شخصیت اورشاعری' کی شکل میں ایک عمدہ نثرپارہ بھی منصہ شہود پر آیا۔

Published: undefined

حنیف ترین کی شاعری عربی زبان میں متعارف ہوئی اور اس کے تحت 'بعیداًعن الوطن' اور 'لم تنزل ابابیل' نامی کتابیں منظرعام پر آئیں۔ زبان انگریزی میں بھی ان کی ایک کتاب 'دی ٹرتھ آف ٹیررزم' کے نام شائع ہوئی۔ سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل دوردرشن ڈاکٹر رفیق مسعودی نے مرحوم کی رحلت پر اظہار افسوس ظاہر کرتے ہوئے یو این آئی اردو کو بتایا: 'ڈاکٹر صاحب میرے اچھے دوست اور ہمدرد تھے، آج صبح ان کا راولپورہ میں انتقال ہوگیا'۔

Published: undefined

مرحوم کو ایک بہترین ماہر نفسیات اور ایک خوبصورت شاعر قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ڈاکٹر حنیف ترین ایک بہترین ماہر نفسیات کے علاوہ ایک خوبصورت شاعر بھی تھے ان کا اپنا ایک الگ اسلوب تھا جس میں عشق بھی، رمق بھی اور عصر حاضر کے حالات کی پیش گوئی بھی ہوتی تھی'۔ موصوف نے بتایا کہ مرحوم کا اردو زبان کے فروغ و تحفظ کے لئے کارناموں اور فکر مندی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

Published: undefined

دلی میں مقیم سینئر صحافی عابد انور نے ڈاکٹر حنیف ترین کو ہمہ پہلو شخصیت کا مالک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے اپنے کلام سے جہاں ملک کے پسماندہ طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا وہیں اردو زبان و ادب کے فروغ و تحفظ کے لئے بھی کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔ انہوں نے مرحوم کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'مرحوم کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات تھے اور ان سے ہماری ملاقات ہوجاتی تھی اور اس کے علاوہ فون پر بھی رابطہ برابر تھا'۔

Published: undefined

دریں اثنا ساگر کلچرل فورم ژکر پٹن نے ڈاکٹر حنیف ترین کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت کی اور پسماندگان کی خدمت میں تعزیت پیش کی ہے۔ واضح رہے کہ حنیف ترین کا آبائی وطن اتر پردیش کا مردم خیز خطہ سنبھل ہے، جہاں کے قصبہ 'سرائے ترین' میں یکم اکتوبر1951میں موصوف پیدا ہوئے۔ ابتدائی مذہبی تعلیم گھرپر ہی ہوئی۔ اس کے بعد آٹھویں جماعت تک کی تعلیم درگاہ اسلامی (رام پور) میں حاصل کی پھر علی گڑھ کا رخ کیا۔

Published: undefined

حنیف ترین نے ایم بی بی ایس کی تعلیم کشمیر سے مکمل کی۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج سے وابستہ ہوگئے۔ مگر1984 میں وہ یہ نوکری چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے جہاں وہ محکمہ صحت میں ترقی کر کے 'طبیب خاص' کے عہدہ تک پہنچ گئے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined