قومی خبریں

دہلی تشدد: کس نے آگ بھڑکتی رہنے دی اور آخر کیوں؟

جب دہلی میں تشدد شروع ہوا تو آر ایس ایس سے جڑے رہے بی جے پی جنرل سکریٹری نے ایک ٹوئٹ کیا ’کھیل اب شروع ہوتا ہے‘۔ نصف گھنٹے کے اندر یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ تو ہو گیا لیکن سوال کھڑا ہو گیا کہ ان کا مطلب کیا تھا؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ملک کی راجدھانی دہلی میں خراب صورت حال کی سیدھی ذمہ داری دہلی پولس اور سیاسی آقاؤں، خصوصی طور سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے تئیں اس کی پوری طرح خودسپردگی پر ہے۔ دہلی پولس کا ڈھانچہ موضوعِ فکر ہے۔ 2017 میں ہی کئی باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ دہلی پولس میں ملک کے شمال مشرقی علاقوں سے ایک ہی پولس افسر ہے۔ شمال مشرقی علاقہ سے کافی سارے طلبا دہلی میں آ کر پڑھائی کرتے ہیں، اس لیے محسوس کیا گیا تھا کہ ان کی تعداد بڑھائی جانی چاہیے۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

اسی طرح کی فکر دہلی پولس میں مسلمانوں کی تعداد کو لے کر بھی ظاہر کی گئی تھی۔ حکومت نے 2013 کے بعد سے ہی بریک-اَپ جاری کرنا بند کر دیا ہے۔ پھر بھی، اسی سال جاری دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دہلی پولس میں 1500 سے بھی کم مسلمان کام کر رہے ہیں۔ دہلی پولس میں 89 ہزار ملازم ہیں۔ 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق دہلی میں مسلمانوں کی تعداد 12.5 فیصد ہے۔ اگر یکساں نمائندگی ہوتی تو 9 ہزار سے زیادہ مسلمان دہلی پولس میں ہونے چاہیے تھے۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

لیکن یہ مسئلہ کا صرف ایک پہلو ہے۔ دیگر ریاستوں کی طرح ہی دہلی پولس بھی گہرے طریقے سے فرقہ واریت اور اب پہلے سے کہیں زیادہ سیاست کی شکار ہے۔ دہلی میں حال کے تشدد کو لے کر آر ایس ایس سے جڑے رہے ایک بی جے پی جنرل سکریٹری (تنظیم) کے گہری سیاست والے ایک ٹوئٹ نے اندیشہ کو گہرا دیا۔ جب دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں تشدد شروع ہوا تو انھوں نے ٹوئٹ کیا ’’کھیل اب شروع ہوتا ہے (گیم ناؤ بیگنس)۔ حالانکہ نصف گھنٹے کے اندر انھوں نے اسے ڈیلیٹ تو کر دیا، لیکن اس کا اسکرین شاٹ یہاں وہاں شیئر کیا جاتا رہا اور اس نے سوال کھڑے کر دیے ہیں کہ ان کا مطلب کیا تھا؟ اور کیا یہ غلطی کا اعتراف تھا؟

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

گزشتہ کچھ مہینوں میں جس جس طرح کے واقعات ہوئے ہیں، اس نے دہلی پولس کا کوئی وقار نہیں بڑھایا۔ دہلی ہائی کورٹ میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا یہ کہنا بہت کچھ کہتا ہے کہ نفرت پھیلانے والی تقریر دینے کے لیے ایف آئی آر درج نہیں کرنے کے لیے دہلی پولس کی کھنچائی نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنے پر ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

اس طرح کی تقریر حال کے دنوں میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے سب سے زیادہ دیے ہیں۔ انھوں نے دہلی انتخابات کے دوران بھی کہا کہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کو سبق سکھانے کا یہی موقع ہے۔ بھلے ہی مرکزی وزیر داخلہ نے اطلاعات کے حق کے تحت پوچھے سوال کے جواب میں اس طرح کے کسی گینگ کے بارے میں جانکاری ہونے سے ہی انکار کیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ شاہ جے این یو اور جامعہ جیسی یونیورسٹیوں کے طلبا اور اساتذہ کے بارے میں کہہ رہے تھے۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

جامعہ میں گھس کر دہلی پولس نے جو کچھ کیا، جب کہ باہری لوگوں نے جے این یو میں گھس کر طلبا اور اساتذہ کے ساتھ جو کیا وہ سب جانتے ہیں۔ اس سے پہلے جب دہلی میں وکیلوں نے پولس والوں کی پٹائی کی تو پولس والوں نے بغاوت کر دی۔ جے این یو اور جامعہ کے واقعات میں پولس ناکام ہی نظر آئی۔ یہ سب ہونے کے باوجود شاہ نے دہلی پولس کمشنر عہدہ سے امولیہ پٹنایک کو نہیں ہٹایا۔ انھیں اس طرح کا صرف نام کا کمشنر غالباً بہتر لگتا ہو۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

تشدد کی یہ آگ کیوں لگائی گئی اور کیوں جاری رکھی گئی، اس سوال کا جواب دینا اور ڈھونڈنا تھوڑا مشکل ہے۔ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانات پر خوب چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں۔ وہ دہلی اسمبلی کا الیکشن بھلے ہی ہار گئے ہوں، لیکن سرخیوں میں بنے رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں آر ایس ایس اور بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل ہے اور دہلی پولس کے ایک ڈی سی پی کے بغل میں کھڑے ہو کر انھوں نے اس طرح کا نفرت پھیلانے والا بیان دیا۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

ان سب سے بی جے پی اور وزیر داخلہ کیا حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں؟ سیاسی حلقوں میں مانا جاتا ہے کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بدنام کرنے کی منشا سے کیا گیا ہے۔ قومی سلامتی مشیر (این ایس اے) اجیت ڈووال کو 25 فروری کو قانونی نظام کنٹرول کرنے میں جس طرح لگایا گیا، اس سے اِس طرح کی بات کو قوت ملتی ہے۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ سی اے اے مخالف مظاہروں کو بدنام کیا جائے اور اکثریتوں کے من میں ان کے تئیں خوف پھیلایا جائے۔ وہ اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اکثریتی طبقہ کو اس بہانے جس طرح جارحانہ بنایا گیا، وہ بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچائے گا۔ ان سب کھیل میں کیا کوئی فاتح ہے؟ یا ہر شخص ہارنے والا ہی ہے؟ وقت اس کا جواب دے گا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ہندوستان ہار گیا ہے۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 28 Feb 2020, 10:30 AM IST