قومی خبریں

شہریت ترمیمی بل: لوک سبھا میں امت شاہ کے جھوٹے دعووں پر مورخین نے اٹھائی انگلی

مذہب کی بنیاد پر تقسیم ملک والے امت شاہ کے بیان کو مورخین نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ نے لوک سبھا میں تحریک آزادی سے متعلق غلط بیان دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

شہریت ترمیمی بل کو لوک سبھا میں بھلے ہی منظوری مل گئی ہو، لیکن اصل امتحان راجیہ سبھا میں ہونا ہے۔ ممکن ہے یہ بل بدھ کے روز راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے۔ اس درمیان مرکزی وزیر داخلہ کے لوک سبھا میں دیے گئے اس بیان پر ہنگامہ برپا ہو گیا ہے جس میں انھوں نے کانگریس پر الزام عائد کیا کہ اس نے مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کیا۔ جب امت شاہ نے لوک سبھا میں یہ بیان دیا تھا تو انھیں ایوان میں بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اور اب پارلیمنٹ سے باہر مورخین نے ان کے بیان پر انگشت نمائی کی ہے۔

Published: undefined

تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے رام چندر گہا نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے 1943 میں ساورکر کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جناح کے دو قومی نظریہ کے ساتھ میرا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہم ہندو اپنے آپ میں ایک قوم ہیں اور یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ ہندو اور مسلمان دو قوم ہیں۔‘‘

Published: undefined

اس سے قبل لال کرشن اڈوانی کے نزدیکی تصور کیے جانے والے مورخ سدھیندر کلکرنی نے امت شاہ کے بیان کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کی تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی سینئر وزیر کو ایک سیاہ قانون کا دفاع کرنے کے لیے اس طرح سے سفید جھوٹ بولتے دیکھا گیا ہو۔

Published: undefined

کلکرنی نے اپنے اگلے ٹوئٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’’کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہیں کیا۔ لیکن امت شاہ نے نہ صرف تحریک آزادی کی تاریخ کو غلط بتایا ہے بلکہ اپنے سب سے بڑے اور سب سے معزز لیڈروں کی بھی بے عزتی کی ہے، جن میں مہاتما گاندھی، نہرو، پٹیل، آزاد شامل ہیں۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’اب ان کو تاریخ کا سبق کون پڑھائے گا کہ کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہیں کیا؟ ایک سفید جھوٹ کا سہارا لے کر حکومت شہریت ترمیمی بل کو پاس کرنے جا رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ امت شاہ کے بیان پر لوک سبھا میں کانگریس رکن منیش تیواری نے حیرانی ظاہر کی تھی اور انھیں بتایا تھا کہ دو ملکی نظریہ ساورکر نے دیا تھا۔ منیش تیواری نے مزید کہا تھا کہ ’’پہلی بار احمد آباد میں 1935 میں ویر ساورکر نے دو ملکی نظریہ کا اصول پیش کیا تھا۔ ہندو مہاسبھا کے اجلاس میں انھوں نے یہ بات کہی تھی۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ قانون کیوں لایا جا رہا ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ قانون کیوں لایا جا رہا ہے، عوام جانتی ہے کہ یہ قانون کیوں لایا جا رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

ایک انگریزی اخبار نے بھی آر ایس ایس مفکر ونایک دامودر ساورکر کے 1923 میں تحریر کردہ مضمون ہندوتوا کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ ساورکر نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے بھی کافی پہلے دو ملکی نظریہ کی پیروی کی تھی۔ یہ مضمون جناح کی طرف سے دو ملکی نظریہ پیش کرنے سے 16 سال قبل شائع ہوا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined