پریاگ راج: اترپردیش میں گزشتہ ماہ دسمبر میں شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کارروائی کے خلاف داخل عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کارروائی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں 7 عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ کورٹ نے آج انہیں عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
Published: undefined
اس ضمن میں داخل مفاد عامہ کی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس سدھارتھ ورما کی بنچ نے اپنے فیصلے میں ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی تک کتنی شکایتیں درج کی گئی ہیں۔ کتنے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں اور کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں ساتھ ہی عدالت نے مہلوکین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو 17 فروری تک جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔
Published: undefined
عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مظاہرین پر پولیس کے تشدد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا ایس آئی ٹی سے معاملے کی جانچ کرائی جائے۔ ان کے مطابق پولیس نے مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال کیا ہے جس کی رپورٹ بیرون ممالک میڈیا میں چھپی ہے اور اس سے ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، میرٹھ اور دیگر شہروں میں پولیس تشدد کے خلاف شکایتوں کی انکوائری کرا کے ان کے خلاف کارروائی کرائی جائے۔
Published: undefined
عرضی گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل محمود پراچہ، ایس ایف نقوی سمیت کئی دیگر وکیلوں نے عدالت میں بحث کی وہیں ریاستی حکومت کی طرف سے اڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل منیش گوئل اور مرکزی حکومت کی جانب سے سبھا جیت سنگھ عدالت میں پیش ہوئے۔
Published: undefined
12 دسمبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے سی اے اے کے پاس ہوجانے اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں اس کالے قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے اور ابھی تک جاری ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران اترپردیش میں سب سے زیادہ تشدد کے واقعات پیش آئے تھے جن میں تقریباً 23 مظاہرین کے ہلاک اور کثیر تعداد میں مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔ یوپی میں مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی جہاں کئی طرح کے سوالات کے کھڑے کیے گئے تھے تو وہیں مظاہرین کے خلاف وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے استعمال کیے گئے لہجے کی بھی کافی تنقید کی گئی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined