
نئی دہلی: کانگریس نے اراولی پہاڑی سلسلے کے معاملے پر ایک بار پھر مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ پارٹی کا الزام ہے کہ مرکزی وزیر برائے ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور اراولی کی نئی تعریف کے ذریعے بڑے پیمانے پر غیر قانونی کان کنی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری اور سابق وزیر ماحولیات جئے رام رمیش نے ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر لکھا کہ اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ اراولی کے معاملے پر مرکزی وزیر پوری سچائی بیان نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کی جانب سے اراولی کی تعریف میں کی جانے والی مجوزہ تبدیلیوں کی نہ صرف جنگلاتی سروے بلکہ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ کمیٹیوں اور قانون دوست (ایمیکس کیوری) نے بھی سخت مخالفت کی ہے۔
Published: undefined
جئے رام رمیش نے سوال اٹھایا کہ جب ماہر ادارے اور اعلیٰ عدالتی سطح پر تحفظات سامنے آ چکے ہیں تو پھر حکومت اراولی کی تعریف میں ایسی بڑی اور متنازع تبدیلیوں پر کیوں اڑی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق اس اقدام کے نتیجے میں اراولی کا بڑا حصہ قانونی تحفظ سے باہر ہو سکتا ہے، جس سے ماحولیات اور قدرتی وسائل کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اسی معاملے پر کانگریس کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ رندیپ سنگھ سرجےوالا نے بھی بی جے پی حکومت پر سخت الزامات عائد کیے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے زیرِ تحفظ ‘مائننگ مافیا’ اراولی کی پہاڑیوں میں بے دریغ غیر قانونی کان کنی کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہریانہ کے مہندرگڑھ، چرخی دادری اور دیگر جنوبی اضلاع میں یہ سرگرمیاں مبینہ سیاسی سرپرستی کے سبب پھل پھول رہی ہیں۔
Published: undefined
سرجے والا کے مطابق بھوانی جیسے اضلاع میں روزانہ ہزاروں ٹن پتھر نکالا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف پہاڑیاں تباہ ہو رہی ہیں بلکہ مقامی آبادی کے گھروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور عوام خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کانگریس رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اراولی، جو شمالی ہندوستان کے لیے ماحولیاتی توازن اور ہوا و پانی کے نظام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، اسے محفوظ رکھنے کے بجائے حکومت ایسی پالیسیوں کو فروغ دے رہی ہے جو بڑے پیمانے پر کان کنی کو آسان بنا سکتی ہیں۔
Published: undefined
قابلِ ذکر ہے کہ وزارت ماحولیات کی سفارش پر سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک حالیہ فیصلے کے مطابق اراولی کی نئی تعریف میں صرف 100 میٹر یا اس سے زیادہ اونچائی والی پہاڑیوں کو محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس فیصلے سے اراولی رینج کا بڑا حصہ تحفظ سے باہر ہو سکتا ہے، جس پر سیاسی اور ماحولیاتی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined