
جے رام رمیش
اراولی پہاڑی سلسلے کی مجوزہ نئی تعریف کو لے کر سیاسی، قانونی اور ماحولیاتی سطح پر ہلچل تیز ہو گئی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا رکن جے رام رمیش نے مرکزی وزیر ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کو ایک تفصیلی خط لکھ کر اراولی کی ’تباہ کن نئی تعریف‘ پر چار براہِ راست اور واضح سوالات اٹھائے ہیں۔ جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر یہ اطلاع دی ہے۔
اپنی پوسٹ میں جے رام رمیش نے کہا کہ یہ ان کا تازہ ترین خط ہے، جس میں اراولی کو صرف 100 میٹر یا اس سے زیادہ اونچائی تک محدود کرنے کی تجویز پر شدید اعتراض درج کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس تعریف سے اراولی کے بڑے حصے، خاص طور پر نچلی پہاڑیاں، رِجز اور جنگلاتی علاقے تحفظ کے دائرے سے باہر ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں مائننگ اور تعمیراتی سرگرمیوں کو کھلی چھوٹ مل سکتی ہے۔
Published: undefined
خط میں جے رام رمیش نے سوال اٹھایا ہے کہ آیا 2012 میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت اراولی سے متعلق جو سرحدیں اور تعریفیں طے کی گئی تھیں، کیا نئی تعریف ان سے متصادم نہیں ہیں؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر 100 میٹر کی شرط نافذ کی گئی تو راجستھان، ہریانہ اور دہلی-این سی آر میں اراولی کے وسیع حصے کس بنیاد پر قانونی تحفظ سے محروم ہو جائیں گے۔ مزید یہ کہ خط میں موجودہ اور پرانی مائننگ لیز کے مستقبل، حیاتیاتی تنوع اور مقامی ماحولیاتی توازن پر پڑنے والے اثرات پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
اسی دوران جے رام رمیش نے ایک اور پوسٹ میں انکشاف کیا کہ ایک ’غیر متوقع قدم‘ کے طور پر سپریم کورٹ نے اراولی سے متعلق پورے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے اور اسے اپنی ویكیشن بنچ کے سامنے سماعت کے لیے فہرست بند کر دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ’ملک کا ماحولیاتی مستقبل داؤ پر ہے‘، اور اس معاملے کو محض انتظامی نہیں بلکہ قومی مفاد کا سوال قرار دیا۔
Published: undefined
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں ہونے والی اس سماعت میں اراولی کی تعریف، مائننگ سرگرمیوں اور متعلقہ پالیسی فیصلوں کا جائزہ لیا جانا ہے۔ عدالت اس بات پر غور کرے گی کہ آیا صرف اونچائی کی بنیاد پر اراولی کی شناخت سائنسی، قانونی اور ماحولیاتی اعتبار سے درست ہے یا نہیں۔
ماہرینِ ماحولیات مسلسل اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ اراولی پہاڑی سلسلہ محض پہاڑیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ شمالی ہندوستان کے لیے قدرتی حفاظتی نظام ہے۔ یہ تھار ریگستان کی توسیع کو روکنے، زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو برقرار رکھنے اور دہلی-این سی آر میں فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی مداخلت کو اراولی کے تحفظ کی سمت ایک فیصلہ کن قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
Published: undefined