قومی خبریں

گارگی کالج واقعہ: پولیس نے 10 نوجوانوں کو کیا گرفتار

دہلی کے معروف گارگی کالج کی سالانہ تقریب میں طالبات کے ساتھ ہوئی بدتمیزی کے چھ دن بعد پولیس نے دس نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

لڑکیوں کے معروف گارگی کالج کی سالانہ تقریب کے دوران باہر کے لوگوں نے کالج میں داخل ہو کر کالج کی طالبات کے ساتھ جو چھیڑ چھیڑ اور بدتمیزی کی تھی اس میں پولیس نے ابھی تک دس نوجوان گرفتار کیے ہیں اور گرفتار نوجوانوں کا تعلق دہلی یونیورسٹی کے کالج اور کچھ پرائیویٹ کالج سے ہے۔ ان کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر کی گئی ہے۔

Published: undefined

واضح رہے کالج کے گیٹ پر لگے کیمروں کی فوٹیج میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح باہر کے لڑکوں نے کالج میں داخلہ کی زبردستی کوشش کی۔ کچھ نوجوان کیٹرر کی کار کے ذریعہ کالج کے صدر دروازہ پر دھکا دیتے دکھائی دے رہے ہیں تو کچھ دیوار کود کر کالج میں داخل ہو رہے ہیں اور کچھ دھکا مکی کر رہے ہیں۔ جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ نوجوان طالبات کے ساتھ نازیبا حرکت کر رہے ہیں اس کا ابھی تک کوئی ثبوت اس لئے نہیں ملا ہے کہ جہاں کا وہ واقعہ ہے وہاں پر سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگے تھے۔ اس سارے معاملہ میں تیس افراد کی نشاندہی کی گئی ہے، اس معاملے میں پولیس کی گیارہ ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔

Published: undefined

واضح رہے گارگی کالج کی یہ سالانہ تقریب چھ فروری کو ہوئی تھی اور اس معاملہ کی جانچ میں خود ڈی سی پی (جنوب) اتل ٹھاکر پیش پیش ہیں۔ اس دن کے واقعہ کی فوٹیج کالج میں لگے تیس سی سی ٹی وی کیمروں سے لی گئی ہے۔ گرفتار لوگوں کے خلاف کئی دفعات کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔ اس کے بہت زیادہ امکان ہیں کہ یہ نوجوان موٹر سائیکل اور کاروں سے آئے ہوں۔ کالج نے اس تقریب کے لئے تیس سے چالیس سیکورٹی گارڈس کو بلایا تھا لیکن وہ بھی اس بھیڑ کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔

Published: undefined

اس معاملہ میں پرنسپل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور سوشل میڈیا پر پرنسپل کو نہ صرف معطل کرنے کی بات کہی جا رہی ہے بلکہ ان کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے پرنسپل نے مبینہ طور پر یہ بیان دیا تھا کہ کالج میں کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور جب طالبات نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر طالبات خود کو ان تقریبات میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں تو پھر ان کو آنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ یہ واقعہ چھ فروری کو پیش آیا تھا لیکن انتخابات کی وجہ سے یہ خبر کہیں نہیں آئی اور تین دن بعد یعنی 8 فروری کے بعد اس خبر کا لوگوں کو پتہ لگا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined