عالمی خبریں

کوسووو کی مساجد میں خواتین مبلغین کا بڑھتا ہوا کردار

زیادہ تر مسلم ممالک میں یہی بہتر قرار دیا جاتا ہے کہ خواتین گھر پر ہی نماز ادا کریں لیکن کوسووو میں عثمانی دور حکومت کی وہ روایت دوبارہ زندہ ہو رہی ہے، جس میں مساجد میں خواتین کا کرداربھی نمایاں تھا۔

نماز ادا کرتیں خواتین
نماز ادا کرتیں خواتین 

اجیمہ سوگوییوو ایک معلمہ ہیں اور کوسوو کے شمالی شہر میتروویٹسا کی ایک مسجد میں موجود ہیں اور ان کے ارد گرد کئی خواتین بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ خواتین قرآن کی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور روزمرہ کی زندگی کے حوالے سے انہیں حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

ایک عشرہ پہلے تک اس ملک میں خواتین کا اس طرح مسجد میں آنا اور درس و تدریس میں حصہ لینا ناقابل یقین تھا۔ اجیمہ ان ایک سو مبلغین میں سے ایک ہیں، جو یورپ کے اس ملک میں ماضی کی اس اہم روایت کو دوبارہ زندہ کر رہی ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مفقود ہو کر رہ گئی تھی۔ اس مہم کا مقصد مساجد میں خواتین کو مذہبی تربیت فراہم کرنا ہے۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

ان مساجد میں خواتین کو مردوں سے الگ کمرے فراہم کر دیے جاتے ہیں۔ کوسووو حکومت اس کوشش کے تحت اسلام کے صنفی مساوات کے حوالے سے نظریے کو اجاگر کرنا چاہتی ہے کیوںکہ مغربی دنیا میں ابھی تک یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسلام کا خواتین کے حوالے سے رویہ کسی حد تک ’جابرانہ‘ ہے۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

مسلم ممالک میں اس طرح کی تعلیم خواتین ہی دوسری خواتین کو فراہم کرتی ہیں اور یہ تعلیم مساجد کی بجائے خصوصی مدارس، گھروں یا پھر ہالز میں دی جاتی ہے۔ کئی بہت ہی قدامت پسند مسلم ممالک میں خواتین کو مذہبی وجوہات کی بجائے سماجی طور پر مساجد سے دور رکھا جاتا ہے۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

پرسٹینا کے اسلامک اسٹڈیز سینٹر میں انگلش کی پروفیسر بیسہ اسماعیلی کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران کوسووو کی مساجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، ’’ماضی میں نہ صرف خواتین کے مساجد میں آنے پر پابندی تھی بلکہ اسلام کے لیے ان کی کوششوں اور قربانیوں کا بھی اعتراف نہیں کیا جاتا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ ہم اس طرح کے غلط تصورات اور رسومات کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

کوسووو ایک پدری سماج ہے لیکن اس کا سیکولر تشخص بھی کافی پرانا ہے۔ اس ملک کی مذہبی شناخت کمیونسٹ دور میں بہت ہی کمزور ہو گئی تھی۔ ملک کی زیادہ تر نسل البانوی اکثریت کی ہے۔مسلمانوں کا مذہبی جذبہ کمیونزم کے زوال کے بعد سے بڑھ رہا ہے۔ سن 2018 میں کوسووو نے سربیا سے آزادی حاصل کی تھی اور حالیہ چند برسوں کے دوران اس ملک میں مذہب سے متاثرہ شدت پسندی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

2012 کے بعد سے تقریباً 3 سو کوسووو کے شہری شام اور عراق میں سرگرم جہادی تنظیم داعش میں شرکت کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی تعداد ان بچوں اور خواتین کی تھی۔ ان میں سے اکثر خواتین اور بچوں کو زبردستی لے جایا گیا تھا۔ شام اور عراق میں ابھی بھی اس ملک کے تقریباً ایک سو اسی شہری سرگرم ہیں۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

تاہم کوسووو حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے کسی ایک شہری نے بھی داعش میں شمولیت اختیار نہیں کی اور نہ یہ کہ ملک میں خواتین مبلغین کے ذریعے خواتین کو با اختیار بنایا جا رہا ہے۔ خاتون پروفیسر بیسہ اسماعیلی کا کہنا تھا، ’’اگر اسلام کی اچھے طریقے سے تشریح کی جائے تو نیشنلزم کی انتہا پسندی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

اس ملک میں متعدد خواتین مبلغین کے لئے مالی امداد ترکی کا ادارہ برائے مذہبی امور یا پھر وہاں کی مذہبی تنظیم ’دیانت‘ فراہم کر رہی ہے۔ ترک حکومت کوسووو کی اسلامک کمیونٹی (بی آئی کے) نامی ادارے کو بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

’بی آئی کے‘ ادارے کے سکریٹری جنرل رسول رجبی کہتے ہیں کہ اب ملک بھر کی تقریبا 8 سو مساجد میں خواتین مبلغین سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں اور اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کے کردار کو بڑھانا اور ان کی زندگی میں جدت لانا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’معلمہ کا کردار پورے معاشرے کے لیے اچھا ہے۔‘‘

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

رسول رجبی کے مطابق ان خواتین مبلغین کی مدد سے گھروں میں ہونے والے جنسی تشدد میں کمی لائی گئی ہے۔ اسی طرح یہ ان خواتین کو بھی مدد فراہم کرتی ہیں، جنہیں جنگ کے دوران جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح یہ خواتین کو اس بات پر بھی آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھیجیں اور انتخابات میں اپنا ووٹ کا حق بھی استعمال کریں۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

گزشتہ دس برسوں میں ان کے لیے بنائے گئے تین اسلامی اسکولوں کی تقریباً 11 سو لڑکیاں گریجویٹ کر چکی ہیں جبکہ 3 سو خواتین اسلامک اسٹڈیز سینٹر سے ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

ایک 21 سالہ طالبہ کا خواتین مبلغین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’بہت سے موضوعات ایسے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں کسی امام سے گفتگو کرنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 24 Nov 2018, 7:56 AM IST