عالمی خبریں

کیا خلیج فارس میں فوج نہ بھیجنے کے فیصلے پر جرمنی قائم رہ پائے گا؟

جرمن حکومت پر خلیج فارس میں یورپی بحری مشن میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم اب تک برلن حکومت اس مشن سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے۔

خلیج فارس
خلیج فارس 

برطانیہ نے جبرالٹر میں ایک ایرانی بحری جہاز کو غیر قانونی طور پر خام تیل شام لے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے تحویل میں لے رکھا ہے۔ ایران نے اس عمل کو 'قزاقی‘ قرار دیا۔ پھر ایران نے برطانوی پرچم والے ایک آئل ٹینکر کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان واقعات کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی مسلسل جاری ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے برطانیہ نے تجویز دی کہ خلیج فارس میں بحری جہازوں کے تحفظ کے لیے یورپی بحری مشن روانہ کیا جانا چاہیے۔

Published: undefined

جرمنی کہاں کھڑا ہے؟

Published: undefined

جرمنی نے ابھی تک خلیج فارس میں اپنی بحری فوج بھیجنے سے نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی اس کی حامی بھری ہے۔ جمعرات کے روز جرمنی کی نئی وزیر دفاع آنے گریٹ کرامپ کارنباؤر نے بھی اس بات کا عندیہ دیا کہ ایرانی ساحلوں کے قریب یورپی بحری مشن میں جرمنی کی شمولیت ممکن ہے۔

Published: undefined

دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ابھی ایسا کوئی بھی منصوبہ بالکل ابتدائی سطح پر ہے۔ جمعے کے روز فنکے میڈیا گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے ہائیکو ماس نے کہا، ''جرمنی مشن میں حصہ لے گا یا نہیں اس کا فیصلہ تبھی کیا جا سکتا ہے جب اس مشن کی شکل واضح ہو گی۔‘‘ انہوں مزید کہا کہ جرمنی یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ مشن یورپی یونین کی نگرانی میں ہو گا، اقوام متحدہ کی یا کسی اور بین الاقوامی تنظیم کی اور یہ کہ کیا اس بحری مشن کو کسی جنگ کے لیے بھی تیار ہونا ہو گا۔

Published: undefined

ماس نے یہ بھی تصدیق کی کہ انہوں نے اس ضمن میں اپنے نئے برطانوی ہم منصب ڈومینک راب سے بھی گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی چاہتا ہے کہ فرانس، برطانیہ اور جرمنی مل کر ایک مشترکہ فیصلہ کریں جو امریکا کے اختیار کردہ راستے سے مختلف ہو۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت پابندیوں سمیت کئی دیگر طریقوں سے دباؤ بڑھانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا، ''ہم زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘‘

Published: undefined

جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں بھی اس حوالے سے متضاد آرا رکھتی ہیں۔ چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو یورپی بحری مشن میں جرمن بحریہ کی شمولیت کی حامی ہے لیکن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایسے کسی بھی عمل کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ ایس پی ڈی کے عبوری شریک سربراہ رولف مٹزینش نے اتوار کے روز ایک مقامی اخبار سے گفتگو میں کہا، ’’ایسے خطے میں اپنی فوج بھیجنا، جہاں نئی جنگوں کے خطرات منڈلا رہے ہوں، کیا یہ سمجھدارانہ اقدام ہو گا۔‘‘

Published: undefined

دوسری جانب امریکا میں جرمنی کے سابق سفیر اور میونخ سیکورٹی کانفرنس کے موجودہ سربراہ وولف گانگ اشینگر نے بھی آج اتوار کے روز خلیج فارس کے یورپی بحری مشن میں جرمنی کی شمولیت کی حمایت کرتے ہوئے اسے جرمنی کی 'اخلاقی ذمہ داری‘ قرار دیا۔ اشینگر کا کہنا تھا کہ 'جرمنی سے زیادہ کوئی دوسرا ملک آزادانہ بین الاقوامی شپنگ پر انحصار نہیں کر رہا‘ اس لیے جب خلیج فارس میں دفاعی مشن کی بات ہو رہی ہو تو جرمنی کو اس بات کو 'کونے میں بیٹھ کر‘ نہیں دیکھنا چاہیے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined