عالمی خبریں

مستقبل کے اَفغانستان کو دہشت گردوں کا گڑھ نہیں بننے دیں گے: طالبان

امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران افغان طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان کو مستقبل میں دہشت گردوں کا گڑھ نہیں بننے دیں گے اور نہ ہی اس سرزمین کو کسی اور ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے دیں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

امریکا کی طویل ترین جنگ اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ نائن الیون حملوں کے بعد امریکا نے افغانستان میں بمباری کا آغاز کیا تاکہ وہاں پناہ لیے ہوئے القاعدہ کے جنگجوؤں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اب 18 برس سے بھی زائد عرصہ گزرنے کے بعد امریکا کی یہ خواہش ہے کہ اس سرزمین کو مستقبل میں امریکا پر حملوں کی تیاری کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور یہی چیز طالبان اور امریکی نمائندوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کا مرکزی موضوع بھی ہے۔

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST

طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی امریکی ٹیم کے سربراہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ وہ ان مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے مطمئن ہیں کیونکہ طالبان نے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کو افغانستان کو ایک محفوظ پناہ گاہ بناتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کی تیاری کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST

افغانستان میں پیدا ہونے والے اور پھر افغانستان میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے خلیل زاد کے مطابق اس کے علاوہ اس امکان پر بھی بات ہوئی ہے کہ ایک ایسے طریقہ کار پر اتفاق ہو جائے جس کے تحت طالبان دہشت گرد گروپ داعش کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن جائیں۔ خیال رہے کہ داعش افغانستان کے شمال مشرقی پہاڑی علاقوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST

زلمے خلیل زاد کے مطابق، ''دنیا یہ یقین حاصل کرنا چاہتی ہے کہ افغانستان عالمی برادری کے لیے خطرہ ثابت نہیں ہو گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم طالبان کی طرف سے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے حاصل ہونے والی یقین دہائیوں پر مطمئن ہیں۔‘‘

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST

تاہم کئی افغانوں کو خدشہ ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے اپنے فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے کی خواہش دراصل طالبان کے خلوص کے بارے میں خدشات پر سبقت پا لے گی۔ افغان صدر اشرف غنی کے مشیر برائے قومی سلامتی حمد اللہ محب کا کہنا ہے کہ طالبان کی بات پر یقین کرنا ایسا ہی ہے جیسا 'دودھ کی رکھوالی بلی کے سپرد کرنا‘۔

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST

دوسری طرف افغانستان میں کئی لڑاکا مہموں میں شریک رہنے والے امریکی خصوصی دستوں کے ایک افسر مائیکل والٹز کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر خوشی ہے کہ طالبان امریکا کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں تاہم انہوں نے بھی طالبان کے خلوص پر شک و شبے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا، '' اگر ان کی بات مان بھی لی جائے تو بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان وہ کام کر لیں گے جو تین لاکھ افغان فوج، امریکی اور بین الاقوامی فوجیں اب تک مکمل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔‘‘

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 27 Jul 2019, 11:10 PM IST