نیویارک، دمشق: اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ شام میں شہریوں کو غیر معمولی بھوک کا سامنا ہے اور 93 لاکھ افراد مناسب خوراک سے محروم ہیں۔ ڈبلیو ایف پی کی ترجمان ایلزبیتھ بیئرس کا کہنا تھا کہ ’’شام کے شہری اس وقت غیر معمولی بھوک کے بحران کا شکار ہیں اور غذائی اجناس کی قیمتیں 9 سالہ خانہ جنگی کے دوران بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں‘‘۔
Published: undefined
ترک نیوز ایجنسی انادولو کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ شام میں ’’لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں‘‘۔ جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ غذائی قلت کے شکار شامی افراد کی تعداد میں صرف گزشتہ 6 ماہ میں مزید 14 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’شام کی معیشت کے لیے پُل کا کردار ادا کرنے والی لبنانی معیشت بھی گر گئی ہے اور دونوں ممالک میں خطرناک صورت حال پیدا ہوئی ہے‘‘۔
Published: undefined
ایلزبتھ بیئرز نے کہا کہ ’’کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن جیسے اقدامات سے ایک سال کے اندر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں 200 فیصد اوپر چلی گئی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ بحران سے قبل غذائی اجناس کی قیمتوں کا موازنہ کیا جائے تو ان میں 20 گنا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحران سے قبل بنیادی ضروریات کی ایک ٹوکری کی قیمت 4 ہزار شامی پاؤنڈ تھی اور اب اس کی قیمت 76 ہزار شامی پاؤنڈ ہوچکی ہے۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق شہری کھانے میں کمی کی وجہ سے اپنی جائیدادیں بیچنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ’’شام میں عوام ایسی صورت حال سے گزر رہی ہے جن سے وہ نبردآزما نہیں ہوسکتے، وہ اپنی بچت کے خاتمے اور گھروں کی فروخت کے باوجود ضروریات پوری نہ ہونے پر شدید دباؤ میں ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سب کے باجود ’’شہریوں کو اب بھی غربت اور بھوک کا سامنا ہے‘‘۔
Published: undefined
ڈبلیو ایف پی کا کہنا تھا کہ شام میں سال کے اختتام پر عوام کو غذائی امداد جاری رکھنے کے لیے 20 کروڑ ڈالر کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ ایلزبیتھ بیئرس نے کہا کہ اگست میں نئے فنڈز کے اجرا تک ادارہ شام کے عوام کو راشن کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر کمی کرنے پر مجبور ہوگا اور اکتوبر 2020 سے غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے زیادہ افراد رجوع کریں گے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ انسانی حقوق کا شامی مبصر ادارے نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ شام میں گزشتہ 9 برس کے دوران ایک لاکھ 16 ہزار شہریوں سمیت 3 لاکھ 84 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مارچ 2011 میں شروع ہونی والی جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں بچوں اور خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے اوراب تک 22 ہزار بچے اور 13 ہزار خواتین جاں بحق ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا تھا کہ شام میں جنگ نے معیشت کو تباہ کر دیا اور ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد شامی باشندے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined