ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے ایوارڈ واپس لینے کے اس فیصلے کی وجہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے حوالے سے آنگ سان سوچی کی جانب سے مناسب کردار ادا کرنے میں ناکامی ہے۔
Published: 14 Nov 2018, 5:28 AM IST
میانمار میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی 2015ء میں برسر اقتدار آئی تھی۔ میانمار فوج کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر سوچی کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ ایمنسٹی کے علاوہ کئی دیگر یونیورسٹیز اور ادارے بھی سوچی کو دیئے گئے اعزازات واپس لے چکے ہیں۔
Published: 14 Nov 2018, 5:28 AM IST
ناقابل دفاع عمل کا دفاع
دوسری جانب ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی میانمار کی اس خاتون رہنما کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں ناقابل دفاع ہیں۔‘‘ 93 سالہ وزیراعظم نے سنگاپور میں جاری جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے اجلاس آسیان سے قبل صحافیوں کو بتایا، ’’ایسا لگ رہا ہے کہ آنگ سان سوچی ناقابل دفاع عمل کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
Published: 14 Nov 2018, 5:28 AM IST
بعد ازاں آسیان اجلاس کی افتتاحی تقریب اور استقبالیہ عشائیے کے دوران دونوں رہنما ایک ساتھ تشریف فرما تھے۔ تاہم وہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے دکھائی دیئے۔ سوچی کے دفاع میں ان کے چند حمایتیوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی حکومتی معاملات میں آج بھی عسکری قیادت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ تاہم سوچی کے ناقدین سمجھتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے سلسلے میں جمہوری حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔
Published: 14 Nov 2018, 5:28 AM IST
واضح رہے کہ میانمار حکومت کے لیے روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیش سے واپسی کا معاملہ بھی سفارتی سطح پر ایک تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔
Published: 14 Nov 2018, 5:28 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Nov 2018, 5:28 AM IST
تصویر: محمد تسلیم