صحت

ہر بیس میں سے ایک موت کا سبب شراب نوشی

عالمی ادارہ صحت نے کہا ے کہ شراب نوشی سے دنیا بھر میں ہر سال تین ملین افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایڈز اور سڑک پر ہونے والے حادثات میں مجموعی طور پر مرنے والے افراد کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

ہر بیس میں سے ایک موت کا سبب شراب نوشی
ہر بیس میں سے ایک موت کا سبب شراب نوشی 

اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شراب نوشی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں زیادہ تعداد مرد حضرات کی ہوتی ہے۔ مے نوشی کے صحت پر اثرات سے متعلق اس جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال بیس میں سے ایک فرد شراب نوشی کے سبب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یہ ہلاکتیں زیادہ تر نشے میں ڈرائیونگ، تشدد اور بدسلوکی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں شراب نوشی مختلف النوع نفسیاتی اور ذہنی عارضوں کا سبب بھی بنتی ہے۔

Published: undefined

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم نے ایک بیان میں کہا،’’ شراب نوشی کے مضمر اثرات صرف پینے والے پر ہی نہیں پڑتے بلکہ اُن کے خاندانوں اور معاشرے پر بھی پڑتے ہیں۔ ایسا ان افراد کی جانب سے تشدد، بدسلوکی اور ذہنی صحت کی ابتری کے باعث بھی ہوتا ہے اور مے نوشی کی کثرت سے سرطان اور فالج جیسی بیماریوں کے سبب بھی۔ وقت آ گیا ہے کہ معاشروں کو کمزور کرنے والی اس بری عادت کے خلاف جنگ کی جائے۔‘‘

Published: undefined

سن 2016 میں الکوحل کے استعمال سے قریب تین ملین اموات ہوئی تھیں۔ صحت کی قریب دو سو طرح کی خرابیاں مہ نوشی سے منسلک کی جاتی ہیں۔

Published: undefined

اس کے مقابلے میں ایچ آئی وی/ ایڈز عالمی سطح پر اموات کے لیے ایک اعشاریہ آٹھ فیصد جبکہ روڈ حادثات کو دو اعشاریہ پانچ فیصد ذمہ دار پایا گیا ہے۔

Published: undefined

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کرائے گئے اس مطالعے کی رُو سے بین الاقوامی سطح پر دو سو سینتیس ملین مرد جبکہ چھیالیس ملین خواتین شراب نوشی سے منسلک عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔

Published: undefined

ڈبلیو ایچ او نے اقوام عالم پر زور دیا ہے کہ شراب نوشی کے سد باب کے لیے بھر پور کوشش کریں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس کا استعمال دس فیصد تک کم کیا جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined