
Getty Images
جدید طب اور ویکسین کی تحقیق پر لوگ عام طور پر گہرا اعتماد کرتے ہیں، یہ مانتے ہوئے کہ ان کا مقصد انسانی صحت کا تحفظ اور بیماریوں کا خاتمہ ہے۔ لیکن اس اعتماد کو اس وقت شدید دھچکا لگتا ہے جب یہ انکشاف ہو کہ امریکی فنڈنگ سے ایک ایسی تحقیق کی جا رہی ہے جو بظاہر اس اعتماد کی سنگین خلاف ورزی کرتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق، یہ تحقیق افریقہ میں کمزور نومولود بچوں کو جان بوجھ کر ایک ثابت شدہ اور جان بچانے والی ویکسین سے محروم رکھ کر کی جا رہی ہے۔ ذیل میں اس تحقیق سے متعلق چند پریشان کن حقائق درج ہیں جو طبی اخلاقیات پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔
Published: undefined
اس تحقیق کا بنیادی اخلاقی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک رینڈمائزڈ کنٹرولڈ ٹرائل (بے ترتیب کنٹرول شدہ آزمائش) ہے جس میں گنی بساؤ میں کچھ نوزائیدہ بچوں کو پیدائش کے وقت ہیپاٹائٹس بی کی مسلمہ ویکسین نہیں دی جائے گی۔ یہ اس حقیقت کے باوجود کیا جا رہا ہے کہ طبی اتفاق رائے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ویکسین محفوظ ہے اور بچوں کو جگر کی بیماری اور موت سے بچاتی ہے۔ اس آزمائش میں، محققین ان بچوں کا موازنہ ان بچوں سے کریں گے جنہیں ویکسین دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ کچھ بچوں کو جان بوجھ کر ایک ایسے انفیکشن کے خطرے میں ڈالا جا رہا ہے جس سے بچا جا سکتا تھا۔
ایموری یونیورسٹی کی متعدی امراض کی ڈاکٹر، بوگھوما ٹائٹن جی کے مطابق یہ تحقیق "غیر اخلاقی" ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تحقیق ممکنہ طور پر "افریقہ اور دیگر جگہوں پر ویکسین کے حوالے سے موجودہ ہچکچاہٹ کو مزید بڑھا دے گی۔"
Published: undefined
اس 16 لاکھ ڈالر کے معاہدے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) میں روایتی اخلاقی جائزہ نہیں لیا گیا۔ سی ڈی سی کے ایک اہلکار کے مطابق، یہ فیصلہ محکمہ صحت اور انسانی خدمات (ایچ ایچ ایس) کے دباؤ پر کیا گیا، اور سی ڈی سی کے عملے نے اندرونی طور پر اس معاہدے پر "شدید غصے" کا اظہار کیا۔ یہ صورتحال سائنسی اور اخلاقی نگرانی کے معیاری طریقہ کار کی سنگین خلاف ورزی کو ظاہر کرتی ہے۔ داخلی نگرانی کا یہ فقدان خاص طور پر اس لیے تشویشناک ہے کیونکہ اس تحقیق کے مرکزی محققین کا ماضی متنازع اور ناقص کاموں سے بھرا پڑا ہے۔
ماہرین اس تحقیق کا موازنہ بدنام زمانہ ٹسکیگی تحقیق سے کر رہے ہیں، جس میں امریکی محکمہ صحت کے کارکنوں نے کئی دہائیوں تک آتشک (سیفیلس) میں مبتلا سیاہ فام مردوں کا علاج روک دیا تھا تاکہ وہ بیماری کے اثرات کا مطالعہ کر سکیں۔ گنی بساؤ کی تحقیق اور ٹسکیگی تحقیق میں براہ راست مماثلت پائی جاتی ہے: دونوں صورتوں میں، محققین لوگوں کو اس وقت بیمار ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جب ایک تصدیق شدہ طبی مداخلت انہیں صحت مند رکھ سکتی تھی۔ جب ڈاکٹر بوگھوما سے ٹسکیگی تحقیق سے موازنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، "یہ ایک مناسب موازنہ ہے۔"
Published: undefined
اس تحقیق کی قیادت ڈنمارک کے محققین پیٹر آبی اور کرسٹین سٹیبل بین کر رہے ہیں۔ ان کے ماضی کے کام پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ خاص طور پر، ان کی مشترکہ تصنیف کردہ 2017 کی ایک تحقیق کو سی ڈی سی کے ایک سابق ڈائریکٹر نے "بنیادی طور پر ناقص" قرار دیا تھا۔ اسی طرح، ڈی ٹی پی ویکسین پر ان کی 2018 کی ایک تشویشناک تحقیق کے نتائج کو 2022 میں ان کے اپنے ہی ایک مقالے نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اس پس منظر محققین کے طریقوں اور ان کے مستقبل کے نتائج کے قابل اعتماد ہونے پر سنگین سوالات اٹھنا ایک فطری عمل ہے۔
اس تحقیق کو گنی بساؤ میں منعقد کرنا انتہائی متنازع ہے کیونکہ وہاں ہیپاٹائٹس بی بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے (تقریباً ہر پانچ میں سے ایک بالغ متاثر ہے)۔ اس کے برعکس، محققین کے اپنے ملک ڈنمارک میں یہ وائرس نایاب ہے۔ یہ تحقیق وہاں بھی باآسانی کی جا سکتی تھی، کیونکہ ڈنمارک میں نہ صرف وائرس کی شرح کم ہے، بلکہ وہاں (ہیلتھ رجسٹریز) صحت کے رجسٹریاں بھی موجود ہیں، جو طویل مدتی نتائج پر نظر رکھنے کے لیے اسے ایک مثالی جگہ بناتی ہیں۔ یہ حقیقت اس دلیل کو رد کرتی ہے کہ گنی بساؤ کو کسی سائنسی فائدے کے لیے چنا گیا ہے، اور اس کے بجائے اس تاثر کو مضبوط کرتی ہے کہ یہ انتخاب خالصتاً استحصالی ہے، اور ماہرین کی رائے میں اس میں "نوآبادیاتی رویے کی بو آتی ہے۔"
Published: undefined
ڈیوک گلوبل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر گیون یامی نے اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے ایک براہ راست سوال اٹھایا: "آخر یہ تحقیق ایک ایسے اعلیٰ وبائی علاقے میں کیوں ہو رہی ہے جہاں پیدائش کے وقت دی جانے والی خوراک سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟"
اس تحقیق میں اخلاقی ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے: ایک ثابت شدہ علاج کو روکنا، نگرانی کے نظام کو نظرانداز کرنا، اور ایک کمزور آبادی کا استحصال کرنا۔ یہ اقدامات نہ صرف ان بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں جو اس تحقیق کا حصہ ہیں، بلکہ یہ سائنس اور صحت عامہ پر عالمی عدم اعتماد کو بھی بڑھاتے ہیں۔ جیسا کہ ویکسین ایجوکیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پال آفٹ نے کہا ، یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے۔ لیکن اس دوران، اس طرح کے فیصلوں کی انسانی قیمت چکانی پڑے گی، کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے بچوں کو مسلسل خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined