DW

مولانا فضل الرحمن کے انکشافات کے مقاصد کیا ہیں؟

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا غصہ ن لیگ کی دھوکے بازی کا جواب ہے، جس کی وجہ سے مولانا کے سیاسی عزائم خاک میں مل گئے۔

مولانا کے انکشافات کے مقاصد کیا ہیں؟
مولانا کے انکشافات کے مقاصد کیا ہیں؟ 

مولانا فضل الرحمن کے بیانات کو روز روشن قرار دینا، پاکستان تحریک انصاف کے تو حق میں ہی ہے لیکن دیگر کچھ حلقوں کے طرح پاکستان علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کے بقول فضل الرحمن کے دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں۔پاکستان تحریک انصاف مولانا فض الرحمن کے دعوؤں کی کسی حد تک تصدیق کرتی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسرے فریقین اس کی تردید کرتے ہوئے دکھائی دیٓتے ہیں۔

Published: undefined

فضل الرحمن کے انکشافات

مولانا فضل الرحمن نے جمعرات کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید نے سیاسی جماعتوں کو عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی راہ دکھائی تھی۔

Published: undefined

ان کا دعویٰ تھا کہ جنرل فیض اور جنرل باجوہ تمام سیاسی جماعتوں سے تحریک عدم اعتماد کے مسئلے پر رابطے میں تھے اور یہ کہ بعد میں پی پی پی اور ن لیگ نے بھی اس کی حمایت کی۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ وہ تحریک اعتماد کے حق میں نہیں تھے لیکن اپنے دوستوں کی خاطر انہوں نے اپنے نقطہ نظر کی قربانی دی۔

Published: undefined

ان انکشافات کے بعد فضل الرحمن نے اپنے دیرینہ سیاسی دشمن عمران خان کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ کئی حلقوں میں ان انکشافات کے مقاصد اور صحت پر بحث ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ن) اور دونوں جنرلوں کے قریبی حلقوں نے مولانا کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔

Published: undefined

پاکستان علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مولانا فضل الرحمن کی دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں۔ جنرل باجوہ یا جنرل فیض حمید نے سیاسی جماعتوں کو کبھی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا نہیں کہا۔‘‘

Published: undefined

نفرت کا تدارک

معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مولانا کی طرز سیاست کی وجہ سے ان کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی تھی، اس لیے وہ اس نفرت کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کے دعوے کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خیبر پختونخوا میں مولانا نے عمران خان کی بھرپور مخالفت کی، جس کی وجہ سے وہاں ان کے خلاف نفرت بڑھی۔ بالکل اسی طرح مولانا کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جی ایچ کیو کے قریب رہے، جس کی وجہ سے عسکریت پسند تنظیمیں ان کے خلاف ہو گئیں۔‘‘

Published: undefined

سہیل وڑائچ کے مطابق مولانا کے تازہ بیانات اس بات کی کوشش ہے کہ اس نفرت کو کم کیا جائے، '' کیونکہ اس نفرت کی وجہ سے انہیں انتخابات میں شکست بھی ہوئی اور وہ بھرپور طریقے سے اپنی انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکے۔‘‘

Published: undefined

ن لیگ کی دھوکہ بازی اور مولانا کے سیاسی مقاصد

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ مولانا کا غصہ ن لیگ کی دھوکے بازی کا جواب ہے، جس کی وجہ سے مولانا کے سیاسی عزائم خاک میں مل گئے۔ جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر حافظ حسین احمد، جو مولانا کی پالیسیوں کے شدید ناقد رہے ہیں، نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مولانا نے لانگ مارچ نکالا تھا، میں نے اس وقت کہا تھا کہ مسلم لیگ نون ہمیں استعمال کرے گی اور پھر ہمیں نظر انداز کر دیا جائے گا۔‘‘

Published: undefined

حافظ حسین احمد کے مطابق لانگ مارچ کے وقت مولانا سے صدارت کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، ''اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ پنجاب اور کے پی میں جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں کی حمایت کی جائے گی لیکن ن لیگ نے تمام ہی معاملات پر مولانا فضل الرحمن کو دھوکہ دیا۔‘‘حافظ حسین احمد کے مطابق افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت جن لوگوں نے مولانا کی اس پالیسی پر تنقید کی انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا، ''کیا مولانا کو یہ نظر نہیں آتا کہ ن لیگ نے جاوید ہاشمی، شاہد خاقان، غوث علی شاہ اور دیگر کے ساتھ کیا کیا۔ وہ لوگوں کو استعمال کرتے ہیں اور مولانا کو بھی استعمال کیا گیا۔‘‘

Published: undefined

قربانیوں کے باوجود مولانا سائیڈ لائن کر دیے گئے

صحافی اور اینکر پرسن فریحہ ادریس حافظ حسین احمد کی اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ نے جو دوبارہ اقتدار حاصل کیا، اس کے لیے مولانا نے بہت جدوجہد کی۔ ان کے دھرنے کی وجہ سے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت ملی اور مولانا کے کارکنان ہمیشہ ن لیگ کے جلسوں کو بڑے اجتماع میں بدل دیتے تھے۔‘‘ فریحہ ادریس کے مطابق مولانا نے نواز شریف کا بہت مشکل وقت میں ساتھ دیا، ''اور اب ان کو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔‘‘

Published: undefined

مولانا پر الزامات بے بنیاد ہیں

جمیعت علماء اسلام کے ترجمان محمد اسلم غوری کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے انکشافات پر اعتراضات اٹھانے والے بالکل بے بنیاد طرح کے الزامات لگا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ مولانا یہ سب کچھ صدارت حاصل کرنے کے لیے کر رہے۔ صدارت کے لیے آج بھی لوگ منتیں کر رہے ہیں لیکن ان کا ایک اصولی موقف ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور یہ دھاندلی اسٹیبلشمنٹ نے کی ہے۔‘‘

Published: undefined

نئے انتخابات کرائے جائیں

محمد اسلم غوری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے لاتعلقی کرے اور صرف اپنی توجہ اس ذمہ داری پر مرکوز کرے جس کا آئین اسے کہتا ہے، ''ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک میں انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ نہیں ملا اور ایک معلق پارلیمنٹ معرض وجود میں آئی ہے۔ اس لیے انتخابات دوبارہ کرائے جائیں اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کی کسی بھی طرح کی مداخلت نہ ہو۔‘‘

Published: undefined

کیا مولانا کے خلاف دھاندلی ہوئی ہے؟

اس سوال پر فریحہ ادریس کا خیال ہے کہ کیونکہ مولانا اپنے حلقے کی عوام سے رابطے میں نہیں رہے، اس لیے انہیں شکست ہوئی ہے، ''پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور پی ٹی آئی کے علی امین گنڈاپور دونوں اپنے حلقے کی عوام سے رابطے میں رہے ہیں اور ان کو ملنے والے ووٹ بھی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ مولانا کے ووٹ چوری نہیں کیے گئے ہیں، ''میرا خیال ہے کہ انہیں واضح شکست ہوئی ہے اور اس میں دھاندلی کا کوئی عنصر نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined