DW

بھٹو ریفرنس: سپریم کورٹ کی رائے تنقید کی زد میں

پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ صرف اس سزائے موت کو غیر قانونی، غیر آئینی یا انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دینا ہی کافی نہیں بلکہ ذمہ داروں کو سزائیں بھی ملنی چاہیے تھیں۔

بھٹو ریفرنس: سپریم کورٹ کی رائے تنقید کی زد میں
بھٹو ریفرنس: سپریم کورٹ کی رائے تنقید کی زد میں 

پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے دائر کیے جانے والے ریفرنس پر سپریم کورٹ کے جوابات و مشاہدات شدید تنقید کی زد میں ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ صرف اس سزائے موت کو غیر قانونی، غیر آئینی یا انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دینا ہی کافی نہیں بلکہ ذمہ داروں کو سزائیں بھی ملنی چاہیے تھیں جبکہ وکلا برادری کا کہنا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا اصل ازالہ حال میں غلطیاں نہ کرنا ہے۔

Published: undefined

کچھ وکلا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ ایک ماضی کی غلطی صحیح کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حال میں جو خطرناک غلطیاں عدالتوں سے ہو رہی ہیں ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ایک نو رکنی بینچ نے قرار دیا ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے مقدمے اور سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔

Published: undefined

اس نو رکنی بینچ کی صدارت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کر رہے تھے جبکہ دوسرے اراکین میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان, جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

Published: undefined

دوہزار گیارہ میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا، جس میں سپریم کورٹ سے سوالات کیے گئے تھے کہ آیا وہ اس تاریخی غلطی کو جس کے تحت بھٹو کو سزائے موت دی گئی تھی درست کر سکتی ہے کہ نہیں۔ اس کے علاوہ بھی عدالت سے کچھ اور سوالوں پر رہنمائی مانگی گئی تھی۔

Published: undefined

فیصلے پر ردعمل

اس فیصلے پہ اپنے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایکس پر لکھا، ''سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عدالتی قتل کے 44 سال بعد اور ریفرنس دائر کرنے کے 12 سال بعد آیا۔ ان کی بہن بختاور بھٹو زرداری نے ایکس پر لکھا، ''عدالت نے متفقہ طور پر یہ رائے دی کہ ہمارے نانا غیر منصفانہ ٹرائل کے شکار ہوئے۔‘‘ بلاول بھٹو زرداری کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو زرداری نے لکھا، ''چار دہائیوں کے بعد بالاخر انصاف کی فتح ہوئی ہے۔‘‘

Published: undefined

فیصلے پر تحفظات

تاہم پیپلز پارٹی کے کچھ دوسرے رہنما اس فیصلے سے اتنے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے اور اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ پی پی پی کے ایک رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمیں سینیٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ اس نہ انصافی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا بھی ملنی چاہیے تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' جسٹس انوار الحق، جسٹس مشتاق اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کرام ویل جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ اس مقدمے میں شامل ججوں کو اگر کوئی سرکاری اعزازات دیے گئے تھے، تو انہیں فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔‘‘ صابر علی بلوچ کے مطابق اس کے علاوہ اس فیصلے پر معافی بھی سامنے آنی چاہیے۔

Published: undefined

وکلا برادری میں بھی کئی ناقدین اس فیصلے کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک رہنما ربیعہ باجوہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیوکو بتایا، '' تاریخی غلطی کو صحیح کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ وقت میں جو عدالتوں سے غلطیاں ہو رہی ہیں، ان کا بھی ازالہ کیا جانا چاہیے۔‘‘ ربیعہ باجوہ کے مطابق بلے کا نشان چھین کر اور اور دوسری جماعتوں کو مختص نشستیں دے کر عوام کے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے بنیادی حق پر ڈاکا ڈالا گیا ہے اور بد قسمتی سے اس کی بنیاد خود سپریم کورٹ نے رکھی۔‘‘

Published: undefined

عدالتوں میں ہونے والے کاروائیوں کا اثر مستقبل کے فیصلوں پہ پڑتا ہے۔ تاہم قانونی ماہر شاہ خاور کا کہنا ہے ان مشاہدات کا عدالتی کاروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' عموما عدالتی فیصلے عدالتی نظیر کے طور پر عدالت میں پیش کیے جاتے ہیں لیکن کیونکہ یہ صرف مشاہدات ہیں ان کو عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

Published: undefined

ابہام بڑھیں گے

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے قانونی معاملات میں ابہام بڑھے گا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے معاملے میں قانونی نکات کو صحیح سے پرکھا نہیں گیا۔ '' صرف ایک شخص سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیانات پر انحصار کر کے یہ مشاہدات دیے گئے ہیں۔ نسیم حسن شاہ نے ایک طرف کہا کہ ان سمیت تمام ججز پر دباؤ تھا کہ وہ بھٹو کو سزائے موت دیں۔ لیکن دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ججزسے ملے اور ان سے انہوں نے درخواست کی کہ وہ اس سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیں۔‘‘

Published: undefined

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل میں اگر کسی فریق کے خلاف فیصلہ آ جائے تو وہ کیوریٹو جسٹس کے ذریعے انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔ آئین کی ارٹیکل 187 اس طرح کے انصاف کا کہتی ہے۔ یہ آرٹیکل مکمل انصاف کی بات کرتا ہے۔ آصف علی زرداری کیوریٹو جسٹس کے ذریعے انصاف حاصل کر سکتے تھے اور عدالت کو بھی یہی کہنا چاہیے تھا کہ وہ کیوریٹو جسٹس کے آپشن کو استعمال کریں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined