ثقافت

کام کے طویل اوقات ہلاکت کا باعث ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

کام کے طویل اوقات سے سالانہ بنیادوں پر ہزاروں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بات عالمی ادارہ صحت نے کو اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتائی۔

کام کے طویل اوقات ہلاکت کا باعث ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت
کام کے طویل اوقات ہلاکت کا باعث ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریسرچ رپورٹ ایک اہم جریدے انوائرمینٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کام کے طویل اوقات سے انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ طویل اوقات کے انسانی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات اتنے شدید ہو سکتے ہیں کہ ان سے متاثرہ انسان اپنی جان سے ہاتھ تک دھو بیٹھتا ہے۔

Published: undefined

کام کے طویل اوقات اور انسانی اموات

عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق اقتصادی عدم اطمینان کی وجہ سے کئی انسانوں کو طویل اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے اور یہ صورت حال کورونا وبا کے ایام میں خاص طور پر زیادہ دیکھی گئی ہے۔ ریسرچ رپورٹ کے مطابق کام زیادہ کرنے کے اوقات کی وجہ سے انسانوں کو مختلف عوارض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں عارضہٴ قلب خاص طور پر اہم ہے۔ سن 2016 میں کام کے طویل اوقات کی وجہ سے دنیا بھر میں سات لاکھ پینتالیس ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہو گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک اور اسٹروک ہے۔ یہ اضافہ سن 2000 کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ ہے۔

Published: undefined

عالمی ادارہٴ صحت کا ردعمل

ریسرچ میں واضح کیا گیا ہے کہ عالمی آبادی میں کام کے زیادہ اوقات کا سامنا کرنے والی آبادی نو فیصد ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے شعبہ انوائرنمنٹ اور کلائمیٹ چینج و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نائرا کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں پچپن گھنٹے کام کرنے سے صحت کے شدید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے لیے عام لوگوں تک بنیادی معلومات پہچانا اور ورکرز کی صحت کا تحفظ بھی بہت ضروری ہے۔

Published: undefined

کام اور گھر کے درمیان لکیر

عالمی ادارہٴ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس آڈہانوم گیبرائسس کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران لوگوں کے کام کی ہیت میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور کئی اداروں میں کمپیوٹر یا ٹیلی ورکنگ نے معمول کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گبرائسس کے مطابق اس نئی صورت حال نے کام کے مقام اور گھر میں فرق مٹا دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور اداروں کو اپنے ورکرز کی صحت کو مقدم سمجھنا چاہیے جب کہ ورکرز کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ زندگی کے سامنے روزگار کی کوئی اہمیت نہیں اور بہتر ہے کہ کام اس طرح کیا جائے کہ ہارٹ اٹیک یا اسٹروک سے محفوظ رہا جائے۔

Published: undefined

عالمی ادارہٴ صحت اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ سن 2016 میں تین لاکھ اٹھانوے ہزار افراد کی موت کی وجہ اسٹروک اور تین لاکھ سینتالیس ہزار افراد کو دل سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جانا پڑا۔

Published: undefined

عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وبا نے انسانی زندگی میں کام کے اوقات کو بڑھا دیا ہے۔ کام کے اوقات زیادہ ہونے سے جو سات لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں، ان میں زیادہ افراد مرد تھے، جو اوسط یا بڑی عمر کے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined