مصر کے فنکار محمود التہامی روایتی 'اناشید‘ مذہبی گائیکی کے ایک ماہر فنکار تصور کیے جاتے ہیں۔ عربی زبان کا مصری گلوکار چودہ سو سالہ پرانے انداز گائیکی 'اناشید‘ میں عرب دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کی شہرت عرب دنیا سے باہر بھی پھیل چکی ہے۔ 'اناشید‘ میں بغیر موسیقی کے مذہبی حمدیہ و نعتیہ و دعائیہ کلام پڑھا یا گایا جاتا ہے۔ اس انداز میں لہک لہک کر مناجات کو گروپ یا کوئی ایک فنکار گاتا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
اکیالیس برس کے محمود التہامی مذہبِ اسلام کی صوفی شاخ سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ ان کی بعض پرفارمنس میں دف کا استعمال ملتا ہے۔ اس کے علاوہ دف کی تھاپ کے ساتھ ساتھ مخصوص صوفی رقص کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
ماہرینِ جمالیاتی فنون رقص کو اعضا کی شاعری کا نام دیتے ہیں لیکن صوفی رقص سے مراد جذب و مستی میں ڈوب کر ایک دائرے میں گھومنا لیا جاتا ہے۔ اس اندازِ رقص کا محور و مرکز قدیمی دور سے ترک شہر قونیا قرار دیا جاتا ہے۔ اسی شہر میں عربی و فارسی کے عظیم شاعر اور فلسفی مولانا جلال الدین رومی کا مزار بھی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
یہ امر اہم ہے کہ قدیمی 'اناشید‘ گائیکی میں کسی بھی قسم کے سازوں کا استعمال ممنوع خیال کیا جاتا ہے۔ اس پابندی کو اسلامی اسکالرز کی تائید بھی حاصل ہے۔ التہامی نے قدیمی انداز میں تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے اور وہ اس گائیکی میں 'فیوژن‘ کو متعارف کروا چکے ہیں۔
Published: undefined
عرب دنیا کے ماہرین موسیقی کا خیال ہے کہ یہ 'فیوژن‘ مقبول اور پوری طرح مستعمل ہو جاتا ہے تو اس دعائیہ اندازِ گائیکی میں انتہائی بڑی انقلابی تبدیلی ہو گی۔ اس تناظر میں برِصغیر و پاک و ہند میں قوالی اسی انداز کی گائیکی قرار دی جاتی ہے، جو کئی صدیوں قبل مسلمان صوفیا کے توسط سے متعارف کرائی گئی تھی۔
Published: undefined
Published: undefined
محمود التہامی اب 'اناشید‘ میں مغربی سازوں کو بھی شامل کر چکے ہیں۔ وہ اس گائیکی میں مغربی 'راک بینڈ‘ اور کلاسیکل موسیقی کے آرکیسٹرا کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ابھی تک بظاہر انہیں کسی بہت بڑی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔
Published: undefined
مصری دارالحکومت قاہرہ میں نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ان کا نیا پراجیکٹ کلاسیکی عرب موسیقی کا پاپولر یا پاپ موسیقی کا ملاپ ہے۔
Published: undefined
التہامی کا مزید کہنا ہے کہ انہوں نے روایتی عرب مذہبی گائیکی میں مغربی اور مشرقی سازوں کی آمیزش کی ہے اور اس کا یقین ہے کہ کلاسیکی 'اناشید‘ نوجوانوں میں مقبول ہو گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کے مغربی سامعین 'اناشید‘ سے تعارف رکھتے ہیں حالانکہ وہ الفاظ نہیں سمجھتے لیکن موسیقی اور لہک لہک کر گانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
التہامی کا تعلق صدیوں سے 'اناشید‘ گانے والے خاندان سے ہے۔ انہوں نے سن 2014 میں قاہرہ میں اپنے موسیقی کے اسکول کی بنیاد رکھی تھی۔ اس اسکول میں وہ اپنے شاگردوں کو نئے انداز سے'‘اناشید‘ گانا سکھا رہے ہیں۔
Published: undefined
وہ پرفارمنس کے دوران روایتی پگڑی کی جگہ مغربی ٹوپی اور لمبے جُبے سے اجتناب کرتے ہیں۔ انہوں نے اس گائیکی میں لباس کے تناظر میں بھی ایک نیا رنگ متعارف کرایا ہے۔ ان کے شاگردوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined