یہ تو بحث ہی عبث ہے کہ کس کے جنازے میں ہزاروں لوگ آئے کہ دو چار۔ بڑے بڑے مہان اور مشہور لوگ لاوارث یا گمنامی میں دفنائے گئے ہیں۔ کسے یاد ہے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول اور متنازع مگر معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں کتنے لوگ تھے؟ وہ تو پھر بھی شاعرہ تھی۔ شاعرہ فہمیدہ ریاض جس نے کہا تھا:
Published: undefined
یارو بس اتنا کرم کرنا ، پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا
Published: undefined
مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دین داری کی
Published: undefined
مت کہنا جوشِ خطابت میں ، دراصل یہ عورت مومن تھی
Published: undefined
مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری
Published: undefined
مت کوشش کرنا اپنا لیں حکام کم ازکم نعش مری
Published: undefined
یاراں ، یاراں ، کم ظرفوں کے دشنام تو ہیں اعزاز مرے
Published: undefined
منبر تک خواہ وہ آ نہ سکیں، کچھ کم تو نہیں دلبر میرے
Published: undefined
ہے سرِ حقیقت جاں میں نہاں اور خاک و صبا ہمراز مرے
Published: undefined
توہین نہ ان کی کر جانا خوشنودیِ محتسباں کے لیے
Published: undefined
میت سے نہ معافی منگوانا دمساز مرے
Published: undefined
تکفین مری گر ہو نہ سکے
Published: undefined
داراصل مندرجہ بالا نظم میں ہی فہمیدہ اپنا زندگی نامہ اور تعزیت نامہ آپ ہی بقلم خود لکھ گئی ہے۔
Published: undefined
ویسے بھی اس ملک میں اب تک شاعر، موسیقار، مصور کہاں وہ مقام پا سکے ہیں۔ یاد ہے بڑے غلام علی خان کے جنازے میں بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لالا نہرو ننگے پاؤں آکر شریک ہوئے تھے؟ ادھر پاکستان ہے کہ جہاں ایسی صورت احوال ’’تو کہ نہ واقف آداب غلامی ہے ابھی‘‘ بنی ہوئی ہے۔ فہمیدہ ان کو یا کسی بھی شکل کی غلامی کے آداب کو خاطر میں کب لائیں؟۔
Published: undefined
انہوں قید خانے میں ایک طلاطم بپا کر دیا تھا، جب ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’پتھر کی زبان” شائع ہوئی تھی۔ اس سے پہلے برصغیر میں ایسی بغاوت فقط ایک عورت نثر میں کر چکی تھیں اور وہ خاتون تھیں عصمت چغتائی۔
Published: undefined
فہمیدہ اپنے دوسرے شعری مجموعے “بدن دریدہ” میں یوں اٹھ کر آئی:
Published: undefined
زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے
Published: undefined
یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اڑتی ہے خوشبو
Published: undefined
یہ بدمست خوشبو جو گہرا غنودہ نشہ لا رہی ہے
Published: undefined
یہ کیسا نشہ ہے!
Published: undefined
اور سنگسار ہوتے ہوئے جوڑوں کو ملنے والی “رجم” کی سزا پر اس نے لکھا:
Published: undefined
“ پاگل تن میں کیوں بستی ہے
Published: undefined
یہ وحشی تاریک آرزو
Published: undefined
بہت قدیم اداس آرزو
Published: undefined
تاریکی میں چھپ جانے کی۔”
Published: undefined
اور پھر اسی نظم کے شروع مٰیں ابن عمر کی اس روایت کو نقل بھی کیا کہ جب “بدکاری” کرنے والے جوڑے کو سنگسار کیا گیا تو مرد عورت پر جھک جاتا اور اسے پتھروں سے بچاتا۔”
Published: undefined
اک اور نظم میں اس نے کہا:
Published: undefined
ماں جائی
Published: undefined
مگر مختلف
Published: undefined
مختلف بیچ میں رانوں کے
Published: undefined
اور پستانوں کے اُبھار میں
Published: undefined
اور اپنے پیٹ کے اندر
Published: undefined
اپنی کوکھ میں
Published: undefined
ان سب کی قسمت کیوں ہے
Published: undefined
ایک فربہ بھیڑ کے بچے کی قربانی
Published: undefined
وہ اپنے بدن کی قیدی
Published: undefined
فہمیدہ اسی نظم کے آخر میں کہتی ہیں:
Published: undefined
“وہ اپنے بدن کی قیدی
Published: undefined
تپتی ہوئی دھوپ میں جلتے ٹیلے پر کھڑی ہوئی ہے
Published: undefined
پتھر پر نقش بنی ہے
Published: undefined
اس نقش کو غور سے دیکھو
Published: undefined
لمبی ران سے اوپر
Published: undefined
ابھرے پستان سے اوپر
Published: undefined
پیچیدہ کوکھ سے اوپر
Published: undefined
اقلیما کا سر بھی ہے
Published: undefined
اللہ کبھی اقلیما سے بھی کلام کرے
Published: undefined
اور اس سے کچھ پوچھے۔”
Published: undefined
برصغیر کے بٹوارے کے وقت اتر پردیش (یوپی) سے پاکستان نقل مکانی کر کے سندھ کے شہر حیدرآباد میں بسنے والے استاد ریاض الدین کے کنبے کی اس برقعہ پوش لڑکی کا مترنم مشاعرے پڑھنے سے لے کر فیمینسٹ اور ترقی پسند سیاسی تحریک سے جڑجانے کے سفر کو میں ان کا ’’بہشتی زیور‘‘ سے ’’سیکنڈ سیکس‘‘ تک کا سفر اور پھر اس سے آگے مارکسیت تک کا سفر پھر جلاوطنی پھر اندوہناک غمناکی جیسا کہ بدھ نے کہا سروم دکھم دکھم کہ ہر جگہ دکھ ہی دکھ ہیں۔ نیز پھر رومی شمس تبریز کی شاعری یا صوفی ہونے تک کا سفر در سفر کہوں گا۔ آدمی ایک اورکھیل ہزاروں۔
Published: undefined
آنکھ اور دل کیا کیا سموئے۔ کیا کیا لکھے۔ لیکن بہ قول ان کے انہوں نے زندگی کے ایک ایک منٹ خود کو محظوظ کیا اور انہیں کوئی پچھتاوا نہ رہا۔ ہاں البتہ جوان سال بیٹے کبیر کی موت نے اسے مار ڈالا۔ وہ عورت جو بہت بہادر شاعرہ تھی۔ سابقہ مشرقی پاکستان پر اس نے لکھا تھا:
Published: undefined
“پھر فوج کے بوٹ تلے ہے بنگال کی گھائل دھرتی
Published: undefined
مسجد مسجد یہ نمازی سجدوں میں پڑے یہ غازی
Published: undefined
گردن تو گھما کر دیکھیں نظریں تو بچاکر دیکھیں
Published: undefined
فہمیدہ ریاض نے شاعری میں کبھی نعرے بازی کا سہارا نہیں لیا۔ جب افغانستان میں کمیونسٹوں کی حکومت قائم ہوئی اور ان کے بہت سے ساتھیوں نے اس تبدیلی کو “ثور انقلاب” کا نام دیا۔ لیکن فہمیدہ نے اس کمیونسٹ مارشل لا کی کوئی مدح سرائی نہیں کی۔ انہوں نے کہا تھا دیکھو ہوتا کیا ہے۔ وہی ہوا کہ غیر ملکی مداخلت پر انقلابات کتنے پائیدار رہ سکتے ہیں۔ لیکن وہ مایوس بھی نہ ہوئیں۔ وہ محنت کش اور پچھاڑے لوگوں کی دوست تادم آخر تک رہیں۔ یہاں تک کہ ہم جیسے سندھی دوستوں کو انہوں نے ناراض کر لیا جب انہوں نے بنگلہ دیش میں پھنسے بہاریوں کی بات کی۔ انہوں نے ہر مسئلے کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھا اور ہم نے اپنے تعصبات کی عینک سے۔
Published: undefined
بینظیر بھٹو کا پہلا دور فمہمدہ کی خوب پذیرائی کا دور رہا جب وہ نیشنل بک فائونڈیشن کی سربراہ بنائی گئی۔ فہمیدہ نے نیشنل بک کونسل کی طرف سے حبیب جالب کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا جس کی صدارت بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو کی موجودگی میں ہی حبیب جالب نے اپنی وہ مشہور نظم پڑہی تھی:
Published: undefined
وہی حالات ہیں فقیروں کے
Published: undefined
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
Published: undefined
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
Published: undefined
پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے
Published: undefined
فمہیدہ ریاض نے لاہور سے پنجابی زبان میں حسین نقی کی زیر ادارت نکلنے والے پہلے اخبار “سجن” کی بھی اپنے ادارے کی طرف سے مالی معاونت کی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined