فکر و خیالات

مزدور مفادات پسِ پشت، صنعت کاروں کو فوقیت

نئے لیبر کوڈ مزدوروں کے روزگار، تحفظ اور اجتماعی حقوق کو کمزور کر کے صنعت کاروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ جمہوری عمل سے ہٹ کر بنے یہ قوانین مزدور طبقے کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ ہیں

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

 

ہندوستان میں مزدوروں کے حقوق، تحفظ اور روزگار کی ضمانت ہمیشہ سے ایک حساس اور بنیادی مسئلہ رہے ہیں۔ مگر حال ہی میں نافذ کیے گئے نئے لیبر کوڈ- صنعتی تعلقات کوڈ، سماجی تحفظ کوڈ اور پیشہ ورانہ تحفظ، صحت و کام کے حالات کا کوڈ حکومت کی واضح کارپوریٹ ترجیحات اور مزدور مخالف پالیسی کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ قوانین بڑے صنعت کاروں اور سیاسی سرپرستی یافتہ طبقے کے مفادات کو مضبوط کرتے ہیں، جبکہ کروڑوں مزدوروں کی نوکری، تحفظ اور بنیادی حقوق کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

ان ضوابط کو پارلیمانی جانچ، اسٹینڈنگ کمیٹی کی تفصیلی غور و خوض اور بامعنی بحث کے بغیر منظور کیا گیا۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ اور بعض ارکانِ پارلیمان کی معطلی کی آڑ میں حکومت نے صوتی ووٹنگ کے ذریعے یہ قوانین نافذ کر دیے۔ یہ طرزِ عمل جمہوری اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی جے پی حکومت مزدور مفادات کو نظر انداز کر کے کارپوریٹ اور سیاسی ایجنڈے کو ترجیح دیتی ہے۔

Published: undefined

نئے ضوابط براہِ راست مزدوروں کی ملازمت کے تحفظ کو کمزور کرتے ہیں۔ برطرفیوں کی حد 100 ملازمین سے بڑھا کر 300 کر دی گئی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے 80 فیصد سے زائد صنعتی ادارے اب بغیر سرکاری اجازت کے ملازمین کو نکالنے یا دوبارہ بھرتی کرنے کے مجاز ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ فکسڈ ٹرم ایمپلائمنٹ (ایف ٹی ای) کے دائرے میں توسیع سے مستقل روزگار کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کمپنیاں اب عارضی یا کنٹریکٹ مزدوروں کو ترجیح دیں گی، جس سے طویل مدتی فوائد، سکیورٹی اور استحکام چھن جائے گا۔ یہ تبدیلی مزدوروں کو مزید غیر محفوظ، غیر مستقل اور کمزور بناتی ہے۔

اگرچہ کاغذ پر آٹھ گھنٹے کے کام کے دن کو برقرار رکھا گیا ہے، لیکن ریاستوں کو بارہ گھنٹے تک کی شفٹ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اوور ٹائم کی حد بھی ریاستی حکومتوں پر چھوڑ دی گئی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کئی مزدور طویل اوقاتِ کار، شدید تھکن اور صحت کے بڑھتے خطرات سے دوچار ہوں گے۔ اسے ’رضامندی پر مبنی‘ قرار دیا جا رہا ہے، مگر زمینی حقیقت میں یہ دباؤ، مجبوری اور منظم مزدور استحصال کی نئی شکل ثابت ہو سکتی ہے۔

Published: undefined

نئے ضوابط ٹریڈ یونینوں اور اجتماعی حقوق کو بھی کمزور کرتی ہیں۔ کسی بھی ہڑتال کے لیے 60 دن کا نوٹس اور 14 دن کا کولنگ آف پیریڈ لازمی قرار دیا گیا ہے، جس سے فوری اور جائز احتجاج کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ صرف وہی یونین مذاکرات کی مجاز ہوگی جس کے پاس 51 فیصد رکنیت ہو۔ اس شرط سے چھوٹی یونینیں اور مختلف مزدور گروہ حاشیے پر چلے جاتے ہیں۔ اگر 50 فیصد کارکن ایک ساتھ چھٹی لیں تو اسے ہڑتال مانا جائے گا، جس سے جرمانوں اور دباؤ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ سب اجتماعی آواز کو دبانے کے واضح اشارے ہیں۔

300 سے کم ملازمین والی اکائیوں میں اسٹینڈنگ آرڈرز کا نفاذ لازمی نہیں رہا۔ کام کے اوقات، چھٹیاں اور برطرفی کے ضوابط اب واضح اور لازمی نہیں ہوں گے۔ اس سے درمیانے درجے کے اداروں میں من مانی ’ہائر اینڈ فائر‘ پالیسی کو فروغ ملے گا اور مزدوروں کے استحصال کے امکانات بڑھیں گے۔

Published: undefined

کارخانے کی تعریف میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ اب بجلی کے ساتھ 20 اور بغیر بجلی کے 40 کارکنوں والی اکائیاں کارخانے کے زمرے میں آئیں گی۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں خطرناک اور غیر محفوظ شعبوں کے مزدور قانونی تحفظ سے باہر ہو گئے ہیں۔ کمزور طبقوں کے لیے مخصوص قوانین کو عام کوڈ میں ضم کر دیا گیا ہے، جس سے ان کی خصوصی حفاظت مزید کمزور پڑ گئی ہے۔

کم از کم اجرت اور سماجی تحفظ کی رقم کو نوٹیفکیشن کے ذریعے بدلنے کا اختیار حکومت کو دے دیا گیا ہے۔ اس سے پارلیمانی نگرانی کمزور اور مزدوروں کے حقوق غیر یقینی ہو گئے ہیں۔ یہ شفافیت اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔

Published: undefined

نئے ضوابط مہاجر مزدوروں کے مفادات کو بھی نظر انداز کرتی ہیں۔ نقل مکانی الاؤنس ختم کر دیا گیا ہے اور 18 ہزار روپے کی آمدنی حد برقرار رکھی گئی ہے، جس کے باعث بڑی تعداد میں مہاجر مزدور تحفظ کے دائرے سے باہر ہو گئے ہیں۔ آدھار پر مبنی رجسٹریشن غیر منظم شعبے کے مزدوروں کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہے، کیونکہ ان کے پاس اکثر ضروری دستاویزات یا ڈیجیٹل رسائی نہیں ہوتی۔

حکومت نے قانون کی خلاف ورزیوں کو جرمانے کے ذریعے نمٹانے کا انتظام کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجرت اور دیگر حقوق کی خلاف ورزی اب “ادائیگی کے قابل خرچ” بن گئی ہے۔ اس سے غیر قانونی سرگرمیوں اور مزدور استحصال کو عملی طور پر جائز حیثیت مل رہی ہے۔

Published: undefined

مجموعی طور پر نئے ضوابط مزدور مخالف اور کارپوریٹ نواز ہیں۔ ملازمت کا تحفظ کمزور ہوا ہے، ٹریڈ یونینوں کی طاقت گھٹی ہے، مہاجر اور غیر منظم مزدور غیر محفوظ ہوئے ہیں اور خلاف ورزیوں پر جواب دہی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اگر ان قوانین پر نظرِ ثانی اور اصلاح نہیں کی گئی تو ہندوستانی مزدور مزید غیر محفوظ، غیر مستقل اور بے اختیار ہو جائیں گے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف جمہوری اقدار کے خلاف ہے بلکہ ملک کے مزدور طبقے کے مستقبل کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔

(مضمون نگار برجندر سنگھ اولا، جھنجھنو سے رکن پارلیمنٹ اور راجستھان حکومت کے سابق وزیر ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined