فکر و خیالات

امریکہ اور اسرائیل کی قوت سوالوں کے گھیرے میں!

محرم سے قبل ایران پر حملے کے بعد اسرائیل و امریکہ کو منہ توڑ جواب ملا، جس سے ان کی طاقت، قیادت، حکمت عملی اور رعب پر سوال اٹھے، اسرائیل نے امریکہ سے مدد مانگی اور اس کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا گیا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

اسلامی سال محرم الحرام کی پہلی تاریخ سے دس تاریخ تک اہل تشیع دنیا بھر میں حضرت امام حسین اور اہل بیت کی یاد میں نوحہ خوانی اور ماتم کرتے ہیں یعنی شیعہ حضرات ان تاریخوں میں اہل بیت کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایران کی تقریباً 90 فیصد آبادی شیعہ مسلمانوں کی ہے اس لیے ان تاریخوں میں ایران میں سوگ کا ماحول رہتا ہے۔ اس سال محرم الحرام کے آغاز سے پہلے امریکہ اور اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا لیکن ایران نے ان حملوں کا منہ توڑ جواب دے کر اپنا لوہا منوایا ہے۔

Published: undefined

ان اسرائیلی اور امریکی حملوں نے جہاں امریکہ اور اسرائیل کی طاقت کی پول کھول دی ہے وہیں کئی چبھتے ہوئے سوالات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل کے حملے کا آغاز کرنے کی وجہ سے ایران کو ابتدائی طور پر کچھ نقصانات برداشت کرنا پڑے اور اس نے کئی بڑے فوجی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو کھو دیا۔ تاہم، نقصانات کا جائزہ لینے کے بعد ایران نے بھرپور جوابی کارروائی کر کے اسرائیل کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ ہر حملے کا جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اسرائیل جو کسی بھی صورت میں اپنے لوگ مرتے نہیں دیکھنا چاہتا ہے اس کو جلدی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ آنے والے دن اچھے نہیں ہیں اور اس نے امریکہ سے مدد کی گہار لگائی۔

امریکہ نے اسرائیل کی مدد کی لیکن اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ جنگ اس کو ہی لڑنی پڑے گی۔ اسرائیل جو ایرانی حکومت کو بدلنے کا راگ الاپ رہا تھا اور یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ ایران جس کا پہلے سے ہی اتنا جانی اور مالی نقصان ہو گیا ہے وہ اس کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا، اس کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا اور ایران نے اسرائیل کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ایران کے اس جواب کی وجہ سے امریکہ کو اپنی حکمت عملی بدلنی پڑی اور اس نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

Published: undefined

جنگ بندی کی زندگی کتنے دن کی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو گیا ہے اور اسرائیل و امریکہ کی طاقت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اسرائیل کا کئی بلین ڈالر کا مالی نقصان ہوا ہوگا لیکن نفسیاتی طور پر اسرائیلی عوام پوری طرح ہل گئے ہیں۔ عرب ممالک پر بھی اسرائیل کا رعب پوری طرح پھیکا پڑ گیا ہے۔ صرف انتا ہی نہیں، اس بارہ روزہ جنگ نے امریکہ کی طاقت پر بھی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ عرب ممالک تھوڑے دنوں بعد اپنی طاقت کا جائزہ لیں گے لیکن اب وہ اسرائیل اور امریکہ کی نئی طاقت کے حساب سے ہی فیصلہ کریں گے۔

اس پوری جنگ میں جو کردار یورپی ممالک کا سامنے آیا ہے اس نے بھی عیسائیوں اور یہودیوں کے تعلقات پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ جس تیزی کے ساتھ کئی یورپی ممالک نے خود کو اسرائیل سے دور کیا ہے وہ اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں قوتوں کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ناروے نے فلسطینی حکومت کو منظوری دے دی ہے اور اسپین کے وزیر اعظم نے جن الفاظ میں غزہ میں اسرائیل کے رویے کی مذمت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ یعنی کل ملا کر اسرائیل کی پیسے کی دادا گیری اب کوئی قبول نہیں کرے گا کیونکہ شاید دنیا کو اسرائیل کی طاقت کا بھی اندازہ ہو گیا ہے اور اس کا بھی علم ہو گیا ہے کہ جتنی دنیا کو سامان کی ضرورت ہے اتنی ہی سامان بنانے والے کو خریدار کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کہیں نہ کہیں اسرائیلی صنعت کاروں کے ہاتھوں لوٹے جا رہے ہیں۔

Published: undefined

خود اسرائیل میں اگر عوام کو ہر پندرہ منٹ میں سائرن کی آواز سن کر بنکروں کا رخ کرنا پڑے تو وہاں کے عوام کے لیے کتنا خوفناک ہے۔ اگر کسی بھی ملک میں بنکر بنانے کو اہمیت دینی پڑے اور وہاں کے عوام کو فوجی تربیت لازمی لینی پڑے تو پھر کروڑوں روپے بھی بیکار ہیں۔ اب جس تیزی کے ساتھ جنگ کے دوران اسرائیل سے نوجوانوں نے ہجرت کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل میں وہ رہنے کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہاں کی سیاسی قیادت اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لیے خوف کا ماحول بنائے رکھنا چاہتی ہے۔

امریکہ ٹرمپ کی قیادت میں اور اسرائیل نیتن یاہو کی قیادت میں کمزور ہو رہے ہیں اور ان کی طاقت سوالوں کے گھیرے میں آ رہی ہے۔ اس سارے معاملے نے امریکہ کی جہاں فوجی قوت پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں وہیں اس کی اقتصادی طاقت پر بھی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ آنے والے دور میں اسرائیل اور امریکہ سے لوگ بچنے لگیں گے اور کوئی نئی قوت سامنے آئے گی۔ 

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined