علامتی تصویر / اے آئی
مئی کا مہینہ دہلی اور شمالی ہند کے لیے شدید گرمی کے باعث ہمیشہ سے ایک امتحان ہوتا ہے۔ درمیان میں چلنے والی آندھیاں اور بوندا باندی کبھی کبھار وقتی راحت تو دیتی ہیں لیکن اس بار دہلی میں جو طوفان اور بارش آئی، اس نے جو تباہی مچائی، وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ شہر کے بڑے حصے میں بجلی کئی گھنٹوں تک غائب رہی۔ سڑکوں پر پانی بھر گیا اور یوں لگا جیسے سب کچھ جام ہو گیا ہو۔
اس بدنظمی پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور عام آدمی پارٹی (عآپ) نے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر دی۔ آپ نے کہا کہ بی جے پی حکومت بجلی کی فراہمی اور شہری سہولیات کا انتظام سنبھالنے میں ناکام رہی ہے، جبکہ بی جے پی کا کہنا تھا کہ آندھی اور بارش نے سابق عآپ حکومت کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ میدان میں اترے اور موجودہ وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا کے کام کی تعریف کی۔ دوسری جانب، عوام کی زبان پر یہ جملہ سنائی دیا، ’’حکومت بدل گئی مگر حالات نہیں بدلے۔‘‘
Published: undefined
یہ صرف آندھی اور بارش کا مسئلہ نہیں، دہلی کی زیادہ تر بنیادی سہولیات اسی طرح بدحال ہیں۔ بی جے پی نے 26 برس بعد دہلی میں حکومت بنائی تو دعوے بہت بڑے کیے گئے۔ وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا نے حلف لیتے ہی دہلی کی ہمہ جہت ترقی کی بات کی لیکن جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ حالیہ طوفان کے بعد کا منظر اسی کا ایک عکس ہے۔
عام آدمی پارٹی کے دور میں محلہ کلینک شروع کیے گئے تھے، دعویٰ تھا کہ عوام کو مفت علاج کی سہولت ملے گی۔ مگر نہ صرف یہ کہ مڈل کلاس کو کوئی خاص فائدہ نہ ہوا بلکہ کورونا کے وقت یہ کلینک ناکارہ ثابت ہوئے۔ نہ مکمل اسٹاف، نہ مناسب سہولیات، بلکہ مریضوں کے فرضی ریکارڈ بھی سامنے آئے۔
Published: undefined
بی جے پی حکومت کے پاس دو راستے تھے، یا تو ان کلینکوں کو بہتر بناتی یا کوئی نیا نظام لاتی، مگر نہ ہی کچھ بہتر کیا گیا اور نہ ہی کچھ نیا۔ صرف نام بدل کر ‘آروگیہ مندر’ رکھ دیا گیا۔ پھر خبر آئی کہ ڈھائی سو کلینک بند کیے جا رہے ہیں، البتہ اسٹاف کو برطرف نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت چلایا جائے گا۔ نتیجہ یہ کہ جو تھوڑی بہت سہولت تھی وہ بھی بند ہو گئی۔
عام آدمی پارٹی کی ایک اور بڑی تشہیری اسکیم تعلیم کے معیار میں بہتری تھی۔ تعلیم کے بجٹ کو کئی گنا بڑھایا گیا لیکن دعووں کے مطابق عملی صورت کبھی نظر نہیں آئی۔ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی تعلیم کا بحران اور بڑھ گیا۔ نجی اسکولوں نے فیس میں اچانک اضافہ کر دیا، الزام لگا کہ حکومت کی شہ پر یہ سب ہو رہا ہے۔ کچھ اسکولوں نے فیس نہ دینے پر طلبہ کو نکال بھی دیا۔ ہنگامے کے بعد حکومت کو مجبوراً ’فیس ریگولیشن ایکٹ‘ لانا پڑا۔
بی جے پی نے آتے ہی بجلی اور پانی پر سبسڈی کو برقرار رکھا لیکن اس پر بھی نظرثانی کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ اس اسکیم کی وجہ سے 27 ہزار کروڑ کے خسارے کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ نہ صرف بجلی و پانی، بلکہ دیگر کئی فلاحی اسکیمیں بھی خطرے کی زد میں ہیں۔
Published: undefined
ریکھا گپتا کی حکومت کے مختلف محاذوں پر ناکامی کے باوجود یہ وقت عام آدمی پارٹی کے لیے دہلی میں اپنی زمین مضبوط کرنے کا بہترین موقع ہو سکتا تھا۔ مگر دہلی کی سیاست سے جو شے غائب ہو گئی ہے، وہ خود عام آدمی پارٹی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ آتشی اور دہلی کے صدر سوربھ بھاردواج بیانات کے ذریعے خود کو نمایاں رکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن وہ بڑے لیڈر جو پارٹی کی پہچان تھے، دہلی میں نظر ہی نہیں آتے۔
پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال اب دہلی سے زیادہ پنجاب میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ وہاں ریلیوں سے خطاب کرتے ہیں، وزیر اعلیٰ بھگونت مان کے ساتھ منصوبے شروع کرتے ہیں۔ منیش سسودیا کو پنجاب کا انچارج بنایا گیا ہے، جبکہ ستیندر جین وہاں کے نائب انچارج ہیں۔ یعنی مرکزی قیادت کا دہلی سے ربط کم ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ تین ماہ میں کیجریوال صرف تین مواقع پر دہلی میں دکھائی دیے۔ مئی میں ایک بار پارٹی کی اسٹوڈنٹ ونگ کے آغاز پر اور اس سے پہلے یومِ شہادت اور امبیڈکر جینتی پر۔ باقی وقت وہ دہلی سے غائب رہے۔
Published: undefined
پندرہ میونسپل کونسلرز نے پارٹی چھوڑ دی، قیادت تماشائی بنی رہی۔ پارٹی نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا، اسی لیے میئر کے انتخاب میں امیدوار ہی نہیں کھڑا کیا۔ مستعفی ہونے والے رہنماؤں نے قیادت پر بے عملی کا الزام لگایا۔ ’دی انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق پارٹی کے کارکن خاصے مایوس ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں منجھدار میں چھوڑ دیا گیا ہے۔
دہلی کانگریس کے صدر دیویندر یادو نے کہا کہ ’’یہ کیجریوال کے نیچے پارٹی کے ڈھانچے کے ٹوٹنے کی جھلک ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ کیجریوال آج کل دہلی سے زیادہ لدھیانہ میں دکھائی دے رہے ہیں، جہاں 19 جون کو اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہونا ہے۔ اگر پارٹی کے امیدوار سنجیو اروڑہ جیت جاتے ہیں، تو راجیہ سبھا کی ایک نشست خالی ہوگی۔ بحث یہ ہے کہ کیجریوال راجیہ سبھا کے راستے قومی سیاست میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس راستے سے دہلی آئیں گے تو بطور نمائندہ پنجاب کے آئیں گے، دہلی کے نہیں۔ پھر دہلی میں عام آدمی پارٹی کا کیا ہوگا؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined