موہن بھاگوت / آئی اے این ایس
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا حالیہ بیان کہ ہندوستان کو مکمل آزادی 1947 میں نہیں بلکہ ایودھیا میں رام مندر کے بننے پر ملی، واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ قوم پرستی کے حوالے سے آر ایس ایس کے نظریات اور کثیر الثقافت نظریہ میں گہرا فرق ہے۔ یہ نقطہ نظر آر ایس ایس کی ’ہندوتو قوم پرستی‘ کے تئیں وفاداری کی علامت ہے جو انتہائی تنگ نظر اور اخراجی ہے اور ہندوستان کے آئین اور اس کی شاندار آزادی کی جنگ کے لیے مرکزی طور پر شامل اور سیکولر عوامی اخلاقیات کی بجائے ایک یکجہتی ہندو شناخت کو ترجیح دیتا ہے۔
کے بی ہیڈگیوار کی 1925 میں قائم کی گئی آر ایس ایس نے ہمیشہ اپنے آپ کو ہندو ثقافتی بالادستی کے محافظ کے طور پر پیش کیا ہے۔ وی ڈی ساورکر کی ہندوتو کے تصور سے متاثر ہو کر آر ایس ایس ہندو ورثہ، ثقافت اور مذہب کے حوالے سے ہندوستانی شناخت کو متعین کرتا ہے۔ ہندو مذہب کے برعکس، ہندوتو ایک سیاسی نظریہ ہے جو ہندوستان کو ایک ایسے ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں مسلمان، عیسائی اور سکھ جیسے اقلیتی گروہ کمتر درجے کے ہوں گے۔ یہ اخراجی نقطہ نظر مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور بی آر امبیڈکر جیسے رہنماؤں کے اقدامات کے بالکل مخالف ہے جنہوں نے ایک سیکولر، جموہوری اور شمولیتی ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔
Published: undefined
آر ایس ایس کے تاریخی کردار کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں یہ بالکل غائب رہی۔ جبکہ گاندھی نے عدم تشدد کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو منظم کیا اور نہرو نے تنوع میں اتحاد کا نظریہ پیش کیا، آر ایس ایس چالبازی سے الگ تھلگ رہا۔ ہیڈگیوار سمیت اس کے رہنماؤں نے نوآبادیاتی مخالف تحریکوں میں شرکت کی بجائے نظریاتی تعلیم کو ترجیح دی۔ ’بھارت چھوڑو تحریک‘ جیسے اہم مواقع پر آر ایس ایس نے برطانوی سامراج کے خلاف لڑنے کی بجائے اپنے تنظیمی دائرہ کو بڑھانا پسند کیا۔ آزادی کی جنگ میں اس کی عدم شرکت کی کمی آر ایس ایس کے ہندوستانی قوم پرستی کے حق میں اس کے دعووں کو کمزور کرتی ہے۔
اس کے علاوہ، آر ایس ایس کا نظریاتی ڈھانچہ وہی ہے جو دو قومی نظریہ کے متنازعہ دلائل کا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ نے مذہبی شناخت کی بنیاد پر ایک الگ پاکستان کا مطالبہ کیا، آر ایس ایس کے ہندو قوم کے نظریے نے اس خیال کو کھل کر تسلیم کیا کہ مذہب قوم پرستی کو متعین کر سکتا ہے۔ ساورکر کے تحریروں نے ہندو قوم سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے اخراج کو کھل کر تسلیم کیا۔ اس نظریاتی رویے نے حقیقت میں شامل اور کثیر الثقافتی ہندوستانی شناخت کے امکان کو ختم کر دیا۔
Published: undefined
آزادی کے بعد ہندوستانی قوم پرستی کے اہم علامات کے بارے میں آر ایس ایس کی مخالفت سے اس کا تنگ نظر نقطہ نظر اور بھی واضح ہو گیا۔ منواسمرتی کے حامی کے طور پر جانے جانے والے آر ایس ایس نے ہندوستانی آئین کی سیکولر ساخت اور جمہوری اقدار پر تنقید کی اور ان اصولوں کو ہندو قوم کے قیام کے خلاف سمجھا۔ بی آر امبیڈکر کی جانب سے ایک ایسا آئین بنانے کی کوششوں کو جس میں ذاتی حقوق کا تحفظ اور برابری برقرار رکھی جائے، ہندوتو کے دانشوروں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ آر ایس ایس نے قومی ترانہ ’جن گن من‘ پر بھی اعتراض کیا اور ’وندے ماترم‘ کی وسیع پذیرائی پر سوالات اٹھائے اور ایسے علامات کی حمایت کی جو اس کے ہندو مرکزیت کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہوں۔ قومی علامتوں کو اس طرح منتخب طریقے سے اپنانے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ آر ایس ایس کو کثیر الثقافتی ہندوستان کے بارے میں کسی باہمی سمجھوتے والے نقطہ نظر اپنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
ہندوستانی قوم پرستی کے بارے میں مرکزی خیال سے مختلف ایک اور اہم مثال ترنگے کو ہندوستان کے قومی پرچم کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرنا ہے۔ آر ایس ایس نے ترنگے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہندو ثقافت کی مناسب نمائندگی نہیں کرتا۔ آزاد ہندوستان کے نشان کے طور پر ترنگے کو اپنایا گیا لیکن آر ایس ایس نے تقریباً پانچ دہائیوں تک اپنے ناگپور ہیڈکوارٹر میں اسے لہرانے سے پرہیز کیا۔ قومی پرچم کی اس طویل مدت تک مخالفت نے تنظیم کی اجتماعی قومی شناخت کے علامات کو اپنانے کی عدم خواہش کو اجاگر کیا جو اس کی ہندوتو نظریہ سے ہم آہنگ نہیں تھے۔
Published: undefined
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور یہ دعویٰ کہ یہ ہندوستان کی آزادی کے مکمل ہونے کا نشان ہے، ہندوتو کو ہندوستانی قوم پرستی کے برابر کھڑا کرنے کی کوششوں کا اشارہ ہے۔ آر ایس ایس اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے چلائی جانے والی ایودھیا تحریک نے آئینی اقدار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مذہبی اکثریتی قوم پرستی کو ترجیح دی۔ 1992 میں بابری مسجد کا انہدام، ایک غیر قانونی عمل جس نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید گہرا کیا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوتو طاقتیں اپنے غلبہ کو قائم کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتی ہیں۔ رام مندر کو قومی فخر کے اعلیٰ نشان کے طور پر پیش کر کے آر ایس ایس مذہبی بنیاد پر ہندوستانی شناخت کو دوبارہ متعین کرنا چاہتا ہے، جمہوریہ کی سیکولر بنیادوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور آئین کے مقاصد کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
آزادی کی لڑائی کے دوران جس ہندوستانی قوم پرستی کا قیام ہوا، وہ تنوع میں اتحاد کے تصور پر مبنی ہے۔ یہ ہندوستانی ذیلی براعظم کی تشکیل کرنے والی ثقافتوں، زبانوں، مذاہب اور شناختوں کی کثرت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا جشن مناتا ہے۔ آئین میں موجود سیکولرازم یہ یقینی بناتا ہے کہ ریاست مذہب کے معاملات میں غیر جانبدار رہے اور تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرے، جبکہ ہندوتو قوم پرستی یکساں شناخت مسلط کرنا چاہتی ہے جو ایک کمیونٹی کو خصوصی مراعات دیتی ہے اور ہندوستانی جموکری کی بنیاد بنانے والے شامل کرنے والے اصولوں کو کمزور کرتی ہے۔
Published: undefined
آر ایس ایس کا نظریہ قوم کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے سنگین خطرات پیدا کرتا ہے۔ ہندوستانی شناخت کو ہندو شناخت کے برابر مان کر، ہندوتو قوم پرستی اقلیتی گروہوں کو الگ تھلگ اور حاشیے پر ڈالتی ہے، تفریق اور غصے کو بڑھاوا دیتی ہے۔ ہندو قوم پرستی پر زور دینا جدید ہندوستان کو متعین کرنے والے سیکولر اور جمہوری اقدار کو خطرے میں ڈالتا ہے جس سے اکثریتی قوم پرستی اور اخراج کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، تاریخ کے حوالے سے آر ایس ایس کا ترمیمی نقطہ نظر ہندو ثقافتی غلبہ کی تعریف کرتا ہے جبکہ مختلف کمیونٹیز کے کردار کو کم نظر انداز کرتا ہے اور یہ ہندوستان کے بھرپور اور پیچیدہ ورثے کو مسخ کرتا ہے۔
راہل گاندھی نے موہن بھاگوت کے بیان کو ہندوستان کے جمہوری اور اس کے آئین کے بنیادی اصولوں کے ساتھ غداری قرار دیا۔ یہ دعویٰ کہ رام مندر کے بغیر ہندوستان کی آزادی مکمل نہیں تھی، محض بیانات بازی نہیں بلکہ ہندوستانی قوم پرستی کے جوہر کو دوبارہ متعین کرنے کی کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ آئینی اصولوں کی بجائے مذہبی شناخت کو ترجیح دینا جو قوم کے کثیر الثقافتی تانے بانے کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ایسا نقطہ نظر فرقہ وارانہ تقسیم اور مختلف کمیونٹیز کے درمیان عدم اعتماد کو فروغ دینے والا ثابت ہو رہا ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان اپنے مستقبل کی جانب بڑھ رہا ہے، ہندوتو اور قوم پرستی کو آپس میں جوڑنے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کا کھڑا ہونا قدرتی ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستانی تجربے کی کامیابی تنوع کو اپنانے، سیکولرازم کو برقرار رکھنے اور تمام شہریوں، چاہے ان کا ایمان اور پس منظر کچھ بھی ہو، کے لیے انصاف اور مساوات کو یقینی بنانے میں مضمر ہے۔
(اشوک سوین سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن و تنازعات کے تحقیق کے پروفیسر ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined