نیلمبور میں ایک غار، تصویر سوشل میڈیا
شام ہو چکی ہے اور نیلمبور واقع کرولائی جنگلوں میں بسے چولنائکن گاؤں کوٹنپارا سے ہلکا سا دھواں اٹھنے لگا ہے۔ کیرالہ کے شمالی ضلع ملپورم کا یہ وہ علاقہ ہے جہاں نم مٹی، تازہ پتوں کی خوشبو اور کائی سے اٹھتی مخصوص مہک ہوا میں گھل کر چولہے کی آگ سے اٹھتے ہلکے دھوئیں اور اس پر پکنے والے کھانے کی خوشبو میں مل کر ایک نئی موسیقی سا پیدا کر رہی ہے۔ شام کے سورج کی شعاعوں سے رنگے آسمان کے نیچے چٹانوں کے کناروں پر لگے ترپال اور خستہ حال خیمے نظر آ رہے ہیں۔ یہ خیمے اب ان خاندانوں کی عارضی رہائش ہیں جو کبھی مضبوط غاروں میں پناہ لیتے تھے۔
Published: undefined
کئی پشتوں کی یادیں اپنے اندر سمیٹے وہ غاریں جو کبھی مضبوط تھیں اب کمزور اور خستہ ہو چکی ہیں۔ بارش کا پانی اندر پہنچ جاتا ہے، دیواریں کمزور ہو کر گرنے لگتی ہیں اور خاندان بمشکل نازک چادروں کے نیچے دبکے بیٹھتے ہیں۔ سردی، طوفان اور جنگلی جانوروں کی مسلسل موجودگی ایسا خوف پیدا کرتی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ ایشیا کے آخری غار نشین چولنائکن لوگوں کی غیر یقینی دنیا ہے۔ اب ان کی مجموعی آبادی محض 249 افراد تک محدود رہ گئی ہے۔
Published: undefined
ان کا کھانا، جو کبھی جنگل سے آسانی سے مل جاتا تھا، اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ روزگار کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ جنگلی جانور جو کبھی دور رہتے تھے، اب بے خوف ہو گئے ہیں۔ بستیوں میں ان کی دراندازی عام بات ہے اور یہ زندگی کا توازن بگاڑ رہی ہے۔ یہ جانور اس جنگل پر منحصر قبیلے کی روزمرہ زندگی میں ایک مہلک موجودگی بن چکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر دن پچھلے سے زیادہ غیر یقینی اور ہر رات پچھلی سے زیادہ پریشان کن ہو گئی ہے۔
Published: undefined
نیلمبور فاریسٹ ڈویژن کی نیدُمکیم چیک پوسٹ سے جنگل کے اندر تک پھیلا ایک مشکل راستہ ہی ہے جو ان کو بیرونی دنیا سے جوڑتا ہے، یعنی یہی ان کی باریک سی زندگی کی ڈور اور امید ہے۔ یہی راستہ چولنائکن کے لیے اسکول، طبی سہولتوں اور راشن تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے، لیکن یہ بھی ہر طرح کے خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ کب ہاتھی، شیر یا ریچھ سامنے آ جائیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ زندگی شام ڈھلتے ہی اور رات گزرتے تک سکڑ کر رہ جاتی ہے۔ جو اس خطرے کو پار کرنے کی ہمت کرتے ہیں وہ بھی ایک ایسی غیر محفوظ دنیا کے مسافر ہوتے ہیں جو ان کی اپنی نہیں ہے۔
Published: undefined
مغربی گھاٹ کے نہایت اہم حصہ اور کیرالہ کے وائناڈ، ملپورم اور کوزیکوڈ کی پہاڑیوں کو تمل ناڈو کے نیلگری پہاڑوں سے جوڑنے والا، حیاتیاتی تنوع سے بھرپور نیلمبور علاقہ عام طور پر انسان اور جنگلی جانور کے تصادم کی جگہ نہیں رہا۔ کئی نسلوں میں بھی ایسے واقعات شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملے ہیں۔ چولنائکن لوگوں کی اپنی لَے اور ان کا روایتی علم انہیں جنگلی جانوروں کے حملوں سے محفوظ رکھتا تھا۔ لیکن جنگلات کے تیزی سے ختم ہونے، جنگلی راستوں میں رکاوٹ، فوڈ سائیکل کے بگڑنے اور انسانی سرگرمیوں کے اضافہ نے ان کے اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم کو بڑھا دیا ہے۔
Published: undefined
بے گھر اور پریشان جانوروں میں بھی خطرناک تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ اب وہ بار بار خطرہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ قبیلہ کے لوگ پچھلے 18 مہینوں میں کئی المناک واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک عورت جو دور راشن ڈپو سے واپس آ رہی تھی، بتاتی ہے کہ کس طرح ایک ہاتھی کے حملہ سے وہ بال بال بچی، جب اسے سامنے دیکھ کر ضروری سامان چھوڑ کر جان بچانی پڑی۔ ایک رہائشی اسکول کے بچوں کو رہنمائی کرنے والا نوجوان بھی اچانک سامنے آئے ہاتھی سے بچنے کے لیے کھائی میں کودنے پر مجبور ہوا۔ گاؤں کے کنارے اکثر شیر دیکھے جاتے ہیں۔ اناج کے ذخائر پر ریچھوں کے حملے عام ہیں، جو خوراک سے متعلق ان کی مشکلات کا ایک بڑا سبب ہے۔ ایشیا کے اس آخری غار نشین قبیلہ کے لیے ایسی جھڑپیں اب ایک مستقل خطرہ بن چکی ہیں۔
Published: undefined
یہ راستہ کتنا خطرناک ہو چکا ہے، اس کا اندازہ 5 جنوری 2025 کی شام کو ہوا۔ 37 سالہ چولنائکن منی اپنی بیٹی کو ایک قبائلی ہاسٹل میں چھوڑ کر واپس گھر لوٹ رہے تھے اور گود میں 5 سال کا بیٹا تھا۔ ساتھ میں 2 نوجوان بھی تھے۔ شام گہری ہو رہی تھی اور سردیوں کی دھوپ میں سائے لمبے ہونے لگے تھے کہ اچانک ایک جنگلی ہاتھی سامنے آ گیا اور سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا کہ ان پر حملہ کر دیا۔ بھگدڑ میں بچہ زمین پر گر گیا اور اگر لوگ فوراً نہ دوڑتے تو شاید بچتے نہیں۔ ہاتھی کے حملہ میں منی بری طرح زخمی ہو گئے۔ اس مشکل راستے پر لوگوں کو انہیں کندھوں پر اٹھا کر ایک کلومیٹر سے زیادہ چلنا پڑا، تب کہیں جا کر گاڑی مل سکی۔ انہیں نیلمبور تعلقہ اسپتال پہنچایا گیا، لیکن زخم مہلک ثابت ہوئے۔ کیرالہ کے محکمہ جنگلات نے معاوضہ کا اعلان تو کیا، لیکن یہ کمیونٹی کے درد کو کم کرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔
Published: undefined
اس واقعہ نے چولنائکن لوگوں میں باقی ماندہ تحفظ کے احساس کو بھی توڑ ڈالا۔ اب اسکول، راشن یا طبی امداد کے لیے جانا آنا موت کے خدشہ کے سایہ میں ہوتا ہے۔ اس کمیونٹی کے پہلے اور تنہا ڈاکٹریٹ یافتہ فرد ڈاکٹر ونود منچیری کہتے ہیں ’’منی کی موت کوئی واحد سانحہ نہیں ہے، یہ برسوں سے نظر انداز کیے جانے اور جنگل کی دنیا و باہری دنیا کے وعدوں کے درمیان بڑھتی خلیج کا نتیجہ ہے۔ جس طرح کے خطرات نے ہمارے لوگوں کو گھیر لیا ہے، ان خطرات سے نمٹنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
پرینکا گاندھی واڈرا ملک کی پہلی قومی سیاسی شخصیت ہیں جنہوں نے 17 ستمبر کو ان غاروں میں قدم رکھا۔ نیلمبور ان کے لوک سبھا حلقہ وائناڈ کا حصہ ہے۔ کیرالہ کا کوئی وزیر کبھی کوٹنپارا یا آس پاس کی کسی چولنائکن بستی تک نہیں پہنچا۔ آبادی کے اعتبار سے یہ چھوٹا سا قبیلہ سیاسی طور پر اہم نہیں تھا اور جنگل کے دشوار راستوں، کیچڑ، بارش اور کمزور لکڑی کے پلوں کو پار کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ لیکن ڈاکٹر منچیری کے ساتھ اور اپنی خواہش کے زور پر پرینکا یہاں آئیں اور گاؤں کے لوگوں سے ملیں۔
Published: undefined
دیہی عوام، خواتین اور بزرگوں کے درمیان بیٹھی پرینکا گاندھی ان کے ٹپکتے گھروں، خستہ خیموں اور گرنے کے خطرات کا سامنا کر رہے غاروں کی کہانیاں سنتی رہیں۔ لوگوں نے ہاتھیوں کی گرج سے بھری راتوں، اسکول جاتے بچوں میں موجود خوف، دور دراز طبی سہولیات اور دواؤں کی کمی کا ذکر کیا۔ پہلی بار کمیونٹی کو کوئی حساس شخص ملا جس نے نہ صرف ان کی بات سنی بلکہ ان کے مسائل کو اعلیٰ سطح پر اٹھانے، بہتر سہولیات دینے اور ان کی زندگی کو احترام بخشنے کا وعدہ کیا۔
Published: undefined
واپسی کے بعد پرینکا گاندھی نے چولنائکن لوگوں کے صبر، لچیلاپن، اجتماعی فیصلہ کی صلاحیت اور قدرتی دنیا کی گہری سمجھ کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا وجود جنگلی ماحولیاتی نظام، پانی کے وسائل اور مغربی گھاٹ کی صحت کے تحفظ سے پوری طرح منسلک ہے۔
Published: undefined
کیرالہ کا محکمہ جنگلات اب کوچین کالج، ایڈاکوچی اور ایم ای ایس ممپد کالج نیلمبور کے ساتھ مل کر ’آرنیا پروجیکٹ‘ پر کام کر رہا ہے۔ یہ ایک امید بھرا منصوبہ ہے جو سفر اور آمد و رفت کے دوران جانوروں کی شناخت اور انتباہ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ پیشگی وارننگ سسٹم منجیری راستہ پر ہاتھی، شیر اور ریچھ کی موجودگی کے بارے میں لوگوں کو پہلے ہی خبردار کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے تحت اہم مقامات پر بیٹری سے چلنے والے وائرلیس سینسر لگائے جائیں گے جو خطرے کے وقت رنگین سگنل دیں گے (ہاتھی کے لیے سرخ، شیر کے لیے پیلا اور ریچھ کے لیے سبز)۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ پہلے سے محتاط رہیں اور محفوظ راستہ اختیار کر سکیں۔ پروفیسر کے. ایس. انوپ داس کا کہنا ہے کہ ’’ٹیکنالوجی جان بچا سکتی ہے، لیکن اسے بہتر سڑکوں، طبی سہولتوں، رہائش اور جنگلاتی روایات کے احترام کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔‘‘
Published: undefined
منچیری واقع چولنائکن گاؤں میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر ونود منچیری جس طرح سے جنگل اور وسیع دنیا کے درمیان ایک پل بن گئے ہیں، وہ ایک نایاب مثال ہے۔ انھیں اپنے والدین سے جنگل کی لَے اور فطرت کو سمجھنے کا ہنر ملا اور تعلیم کے سہارے وہ آگے بڑھے۔ ابتدائی تعلیم نے انہیں اسکول کے چھوٹے انعامات جیسے پھل اور نئے کپڑے دلائے اور یہی ڈور انہیں رہائشی قبائلی اسکولوں تک، اور پھر شہر کی اعلیٰ تعلیم تک لے گئی۔ انہوں نے عملی معاشیات میں پی ایچ ڈی کی اور اپنے قبیلہ کے پہلے فرد بنے جنہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
Published: undefined
ونود کا کام چولنائکن لوگوں کی مشکلات کا ایک اہم ریکارڈ ہے جو دکھاتا ہے کہ تنہائی، ثقافتی علیحدگی اور سہولتوں کی کمی کس طرح وجود کے بحران میں بدل جاتی ہے۔ انہوں نے کمیونٹی کی حالت زار پر توجہ دلائی اور پرینکا گاندھی کی توجہ بھی اپنی کوششوں سے مبذول کرائی۔ ونود کہتے ہیں کہ ’’ہمارے لوگ ہمیشہ جنگل کے ساتھ ہم آہنگ رہے ہیں، لیکن ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے تحفظ، تسلیم اور تعاون ضروری ہے۔ ورنہ زندگی ایک بقا کی جنگ بن جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
1960 کی دہائی میں جب جنگلاتی افسران نے پہلی بار چولنائکن قبیلہ کو باضابطہ طور پر ریکارڈ کیا تو ان کی کہانیاں زیادہ سامنے نہیں آئیں۔ مردم شماری کے ریکارڈ میں ان کی گنتی غلط تھی، ان کی زبان اور رسم و رواج کو اکثر غلط سمجھا گیا، یا انہیں اجنبی بنا دیا گیا۔ اسکول دور، سڑکیں مشکل اور طبی سہولتیں تو تقریباً ناپید تھیں۔ رہائش، فلاحی کام اور بہتر رابطے کے وعدے ہمیشہ وعدے ہی رہے۔ لیکن چولنائکن شکست ماننے والے نہیں تھے۔ وہ جنگل کے پھل، شہد، چھوٹے شکار اور مچھلیوں پر زندہ رہے۔ انہوں نے وہ بحالی منصوبے مسترد کر دیے جو انہیں ان کے آبائی غاروں سے بے دخل کرتے۔ جنگل کے دباؤ، موسمیاتی تبدیلی اور وسائل کی کمی کے باوجود انہوں نے جو کچھ بچا سکتے تھے، بچایا (یعنی مقامی علم، اپنی زبان اور جنگل سے جڑی اپنی شناخت)۔
Published: undefined
آج ان کی غاریں ٹپک رہی ہیں، تیز ہوائیں ان کے ترپال ہلا دیتی ہیں۔ کبھی زندگی کا سہارا رہا جنگل اب خطرے کا گزرگاہ بن گیا ہے۔ بچے صرف دیومالائی راکشس سے نہیں بلکہ ان ہاتھیوں سے بھی ڈرتے ہیں جو ان کے گھروں کو اجاڑ دیتے ہیں، اور جن کے حملے جان لیوا ہوتے ہیں۔ لیکن چولنائکن کا علم اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی لغت مشکل ہو سکتی ہے لیکن مقامی پودوں، جڑی بوٹیوں، جانوروں اور موسموں کی سمجھ نہایت گہری ہے۔ ان کے سماجی ڈھانچے، سردیوں کے پناہ گاہ اور جانوروں کا سراغ لگانے کے طریقے تحقیقی کاموں اور ثقافتی ورثے کے مطالعہ کو قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم انہیں کھو بیٹھے تو یہ انسانی ذہانت اور بقا کے ایک زندہ باب کو کھو دینے کے مترادف ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز