تصویر بشکریہ اے آئی
لوک سبھا انتخابات میں ہندوستانی جمہوریت کے لیے امید کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ آئینی جمہوریت کی بنیادی اقدار کے سامنے جو دیوار کھڑی کی گئی تھی، اس میں کھڑکی کھولنے کا کام عوام نے کیا، نہ کہ سیاسی جماعتوں نے۔ 1977 کی ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابات کی طرح 2024 میں بھی ہندوستانی عوام نے اس دیوار میں ایک کھڑکی کھول کر اپوزیشن جماعتوں کو موقع دیا کہ وہ اسے دروازے میں تبدیل کریں اور اس راستے سے ملک کو بچانے کی جدوجہد کریں۔
لیکن ہندوستانی جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ اکثر سیاسی جماعتیں ایسی بڑی ذمہ داری سنبھالنے میں ناکام رہتی ہیں۔ صرف چھ ماہ میں ہونے والے تین اسمبلی انتخابات کے بعد یہ کھڑکی اب سمٹ کر ایک روشندان بن چکی ہے۔ اب دوبارہ عوام اور عوامی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کی روح کو بچانے کی جدوجہد کو تیز کریں۔
Published: undefined
روشنی کی کھڑکی سے دروازہ کھولنے کے لیے ضروری تھا کہ لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہنچنے والے دھچکے کو اس کی شکست میں تبدیل کیا جائے۔ لوک سبھا کے بعد ہونے والے تینوں اسمبلی انتخابات میں یہ ناممکن نہیں تھا۔ مہاراشٹر میں انڈیا اتحاد یعنی مہا وکاس اگھاڑی کو 48 میں سے 30 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ وہاں اسمبلی کا انتخاب تقریباً جیتا ہوا مانا جا رہا تھا۔ ہریانہ میں لوک سبھا کی سیٹیں 5-5 بٹ گئی تھیں لیکن اسمبلی کے تناظر میں یہ ماننا فطری تھا کہ کانگریس کو کامیابی ملنی چاہیے۔ جھارکھنڈ میں معاملہ کچھ مشکل تھا۔ چونکہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کا پلڑا بھاری تھا لیکن پھر بھی ایسا لگتا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو جے ایم ایم اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی ممکن ہے۔
حقیقت میں ہوا اس کے عین برعکس۔ جس جھارکھنڈ میں کامیابی سب سے مشکل تھی، وہاں انڈیا اتحاد نے دھڑلے سے کامیابی حاصل کی۔ ہریانہ میں جہاں کانگریس کو جیتنا چاہیے تھا، وہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مہاراشٹر، جہاں انتخاب جیتا ہوا لگ رہا تھا، وہاں انڈیا اتحاد کا صفایا ہو گیا۔ بلاشبہ، یہ انتخابی نتائج تنازعہ سے ماورا نہیں ہیں۔ ہریانہ اور مہاراشٹر دونوں ریاستوں میں اپوزیشن نے انتخابی نتائج پر سوال اٹھایا ہے۔ گزشتہ 35 سال سے انتخابات کے نتائج کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے بھی اس بار ہریانہ اور مہاراشٹر میں مدھیہ پردیش کے حیران کن نتائج کی طرح کسی گڑبڑ کا اندیشہ محسوس ہوا۔ تاہم، اس تنازعہ کو چھوڑ کر ان انتخابی نتائج کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔
Published: undefined
لوک سبھا انتخابات کے بعد سے نریندر مودی حکومت کے رویے میں جو نرمی آئی تھی، وہ اب تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی جھلک مہاراشٹر میں کامیابی کے بعد اور پارلیمنٹ کے اجلاس کے آغاز پر وزیر اعظم کے بیانات سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ بی جے پی کے لیے آئین کو تبدیل کرنا یا ’ایک قوم، ایک انتخاب‘ جیسی اسکیم کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہوگا لیکن دیگر ایجنڈوں پر مرکز کی حکومت تیزی سے عمل کرے گی۔ ان میں وقف بورڈ کے قوانین میں تبدیلی، یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور مردم شماری کے ذریعے حلقہ بندی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ بی جے پی کسی بھی مخالفت کو دبانے کی کوششوں میں شدت لائے گی، چاہے وہ سوشل میڈیا اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر سختی ہو، عوامی تحریکوں کو محدود کرنے کے قوانین ہوں یا سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہوں۔ اقتصادی پالیسیوں میں بھی چند بڑے صنعتی گھرانوں کو فائدہ پہنچانے والے فیصلے بے روک ٹوک جاری رہیں گے۔ گزشتہ مہینوں میں سیبی کے چیئرمین اور گوتم اڈانی کے معاملے پر جو سوالات اٹھائے گئے تھے، ان کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ آئندہ ایک سال تک حکومت اپنے ہر فیصلے کو عوامی مقبولیت کی بنیاد پر جائز ٹھہرائے گی اور این ڈی اے میں بی جے پی اور نریندر مودی کا وزن مزید بڑھے گا۔
Published: undefined
ایسے حالات میں آئینی جمہوریت اور ہندوستان کی روح کے لیے پُرعزم عوامی تحریکوں، تنظیموں اور شہریوں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں حکومت کے غیر جمہوری ایجنڈے کی مخالفت کریں لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ ان کی آواز زیادہ سنی جائے گی۔ اگر اپوزیشن دہلی اور بہار کے انتخابات میں بی جے پی کو روکنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا۔
آنے والے مہینوں اور سالوں میں جمہوریت کو بچانے کی جنگ کا اصل میدان پارلیمنٹ کے بجائے سڑک ہوگی۔ جمہوری اور عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے عوامی تحریکوں اور جدوجہد کے ذریعے اس جنگ کو آگے بڑھایا جائے گا۔ بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کی حالت، دلت، آدیواسی، خواتین اور اقلیتوں پر مظالم جیسے بے شمار مسائل ہیں جن پر عوامی تنظیموں کو اٹھنا پڑے گا۔ اڈانی کے گھوٹالوں جیسے مسائل صرف اپوزیشن کی آواز بلند کرنے سے حل نہیں ہوں گے، جب تک کہ یہ سوال سڑکوں پر نہ اٹھایا جائے۔
Published: undefined
تاہم، پارلیمنٹ اور سڑک سے بھی زیادہ اہم میدان ثقافت کا ہے۔ آخرکار، ہندوستان کی روح کو بچانے کی جنگ ایک نظریاتی جنگ ہے۔ آزادی کی جدوجہد نے ہندوستان کے جس تصور کو پیش کیا تھا، اسے محفوظ رکھنا اور ہر نئی نسل کو نئے انداز میں سمجھانا سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد کی نسلیں اس ذمہ داری کو ایمانداری سے پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج آئین مخالف اور ملک مخالف نظریے اور سیاست آئینی اقتدار پر قابض ہیں۔ اس کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم آئین کی زبان کو عوام کے مسائل اور ان کے مفاد سے جوڑیں۔ آئین کے 75 سال مکمل ہونے پر یہ ہر اس شہری کی ذمہ داری ہے جو آج بھی آئینی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے، کھڑکی نہ سہی، روشندان اب بھی کھلا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined