فکر و خیالات

بدھوڑی کی بدزبانی، حکومت کی خاموشی اور دانش علی کا کرب

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔ حالانکہ اظہار افسوس بھی لولا لنگڑا تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو وہ معذرت خواہ ہیں!

<div class="paragraphs"><p>رمیش بدھوڑی (بائیں) اور دانش علی (دائیں)</p></div>

رمیش بدھوڑی (بائیں) اور دانش علی (دائیں)

 

تصویر سوشل میڈیا

بی جے پی کے ایم پی رمیش بدھوڑی نے پارلیمنٹ کے اندر بی ایس پی کے ایم پی کنور دانش علی کی شان میں جو گستاخی کی ہے اگر انھوں نے ایوان کے باہر ایسی حرکت کی ہوتی تو اب تک ان کے خلاف پولیس کیس ہو چکا ہوتا۔ لیکن چونکہ ایوان میں دیے گئے بیان کے خلاف ایوان کے باہر قانونی چارہ جوئی نہیں ہو سکتی اس لیے وہ اب بھی آزاد ہیں۔البتہ پارٹی نے انھیں وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرکے پندرہ دن کے اند رجواب مانگا ہے۔ یقیناً یہ کوئی کارروائی نہیں ہے۔ اس سے تو ان کے حوصلے او ربلند ہو گئے ہوں گے۔ اب اگر آگے چل کر وہ پھر کسی کی شان میں ایسی گستاخی کریں تو کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ دانش علی نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا سے اس کی تحریری شکایت کی ہے اور اوم برلا نے بدھوڑی کو یہ وارننگ دے کر چھوڑ دیا ہے کہ اگر دوبارہ ایسی حرکت کی تو سخت کارروائی ہوگی۔

Published: undefined

اوم برلا لوک سبھا کے اسپیکر ہیں۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے وہ کسی پارٹی کے ایم پی نہیں ہیں۔ ایک اسپیکر کو تمام ارکان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ اسے کسی کے خلاف تعصب سے کام نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی کسی کے ساتھ بیجا رو رعایت کرنی چاہیے۔ اب تک بیشتر اسپیکروں کا کم و بیش یہی کردار رہا ہے۔ لیکن موجودہ اسپیکر کا رویہ بظاہر غیر جانبدارانہ نہیں لگتا۔ کیونکہ اس سے قبل انھوں نے ایوان کے اندر نعرہ بازی کرنے کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کے ارکان سنجے سنگھ اور راگھو چڈھا کو ایوان سے معطل کر دیا ہے۔ حالانکہ ایوان کے اند رہمیشہ نعرہ بازی ہوتی رہی ہے۔ ممبران ایوان کے وسط میں پہنچتے رہے ہیں اور یہاں تک کہ اسپیکر کے اوپر کاغذ پھاڑ کر پھینکتے بھی رہے ہیں۔ ایسے مواقع پر ان کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا جاتا رہا ہے۔

Published: undefined

مبصرین کہتے ہیں کہ جس زبان کا استعمال رمیش بدھوڑی نے دانش علی کے لیے کیا ہے اگر اس زبان کا استعمال کسی دوسری پارٹی کے رکن نے کسی بی جے پی ایم پی کے خلاف کیا ہوتا تو فوری طور پر اس کو نہ صرف معطل کر دیا گیا ہوتا بلکہ اور بھی کارروائی کی گئی ہوتی۔ لیکن اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود حکومت اور حکمراں جماعت نے خاموشی کی ایسی چاد راوڑھ رکھی ہے کہ جیسے کسی نے کچھ کہا نہیں اور کسی نے کچھ سنا نہیں۔ یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ جس وقت بدھوڑی بدزبانی کر رہے تھے ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے دو سابق کابینہ وزیر روی شنکر پرساد اور ڈاکٹر ہرش وردھن مزے لے رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ ان دونوں کو نہ تو بدھوڑی کی گستاخی قابل اعتراض لگی اور نہ ہی اپنا رویہ شرمناک لگا۔

Published: undefined

البتہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔ حالانکہ اظہار افسوس بھی لولالنگڑا تھا۔ ان کا یہ کہنا کہ اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو وہ معذرت خواہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کو معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ معذرت تو بدھوڑی کو کرنی چاہیے تھی۔ دوسری بات یہ کہ چلو راج ناتھ سنگھ نے معذرت کی لیکن اس میں اگر اور مگر کی کہاں گنجائش ہے۔ ٹھیس نہ صرف دانش علی کے جذبات کو پہنچی ہے بلکہ پورے ایوان کو پہنچی ہے، پورے ملک کو پہنچی ہے اور ملک کے تمام مسلمانوں کو پہنچی ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹر ہرش وردھن نے بدھوڑی کے بیان پر کچھ اظہار خیال کرنے کے بجائے اپنی صفائی پیش کی ہے اور یہ بتانے اور جتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ پرانی دہلی کے باشندہ ہیں اور وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ان کا بچپن اور جوانی گزری ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو دی جانے والی گالیاں برداشت کر لیں گے۔ ایسی صورت میں جبکہ بہت سے مسلمان ان کے دوست ہیں انھیں تو بدھوڑی کے بیان کی مذمت کرنی چاہیے۔ ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ اگر وہ مذمت نہیں کریں گے تو اپنے مسلم دوستوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ انھوں نے یہ غلط بیانی بھی کی ہے کہ شور شرابے میں وہ کچھ سن نہیں سکے۔ جبکہ وہ بالکل ان کے پیچھے تھے اور ہنس رہے تھے۔

Published: undefined

بہت سے مبصرین اور آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بدھوڑی نے جو کچھ کہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ تو اس قسم کی زبان پہلے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہاں نئی بات یہ ہوئی کہ انھوں نے اس زبان کا استعمال ایوان کے اندر کیا اور وہ بھی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ہونے والے پہلے اجلاس کے دوران کیا۔ مبصرین کے مطابق اس میں کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی بی جے پی کا کلچر ہے، یہی اس کی تہذیب ہے۔

Published: undefined

وہ اس سلسلے میں ماضی کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بی جے پی کا کوئی لیڈر اگر کسی کو اور خاص طور پر مسلمانوں اور بی جے پی مخالفوں کو گالیاں دیتا ہے تو اس کو اس کا انعام ملتا ہے۔ اس کی ترقی ہوتی ہے۔ انوراگ ٹھاکر کی مثال سامنے کی ہے۔ انھوں نے جب دہلی انتخابات کے موقع پر گولی مارنے کا نعرہ لگایا تھا تو اس وقت وہ وزیر مملکت تھے۔ لیکن گالیوں والا نعرہ لگوانے کے بعد انھیں کابینہ وزیر بنا دیا گیا۔ گری راج سنگھ بھی مسلمانوں اور بی جے پی مخالفوں کو گالیاس دیتے دیتے پہلے جونیئر وزیر ہوئے اور پھر کابینہ وزیر ہو گئے۔ پرگیہ ٹھاکر نے مسلمانوں اور بی جے پی مخالفوں کو مغلظات سنائیں تو انھیں ایم پی بنا دیا گیا۔ ہیمنت بسوا سرما مسلمانوں کو گالیاں دیتے دیتے وزیر اعلیٰ بن گئے۔

Published: undefined

مبصرین کہتے ہیں کہ بی جے پی میں ترقی کا آسان فارمولہ یہ ہے کہ مخالفوں کو گالیاں دو اور انعام پاؤ۔ کوئی تعجب نہیں کہ رمیش بدھوڑی کو اب ان کے کارنامے کی وجہ سے دہلی بی جے پی کا صدر بنا دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حیرت نہیں ہوگی۔ کیونکہ وہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ شاہ کے چہیتے ہیں۔ وہ مودی کے استقبال کے لیے بھیڑجٹاتے اور ان کی شان میں نعرے لگانے والوں کا مجمع اکٹھا کرتے ہیں۔ اب بھلا ایسے کام کے لیڈر کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی؟ اب تک حکومت اور پارٹی کا جو رویہ ہے اس کے پیش نظر بدھوڑی کی ترقی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ہاں اگر مسلم ملکوں کی جانب سے اس پر احتجاج ہو تو ممکن ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو جائے۔

Published: undefined

دراصل گزشتہ تقریباً دس برسوں کے درمیان سیاست کے معیار کو انتہائی پست کر دیا گیا ہے۔ پہلے سیاست میں کچھ مریادائیں ہوتی تھیں، کچھ آدرش ہوتے تھے، کچھ وقار ہوتا تھا، کچھ سنجیدگی ہوتی تھی اور کچھ اصول ہوتے تھے۔ لیکن اب سیاست میں ان چیزوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہ گئی۔ اب بد زبانی کا نام شائستگی پڑ گیا ہے۔ بیہودگی کا نام تہذیب رکھ دیا گیا ہے۔ گالی گلوج کو قصیدہ خوانی کہا جانے لگا ہے۔ اصول شکنی کو اصول پرستی بتایا جا رہا ہے۔ اب قدروں کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی۔ اصولوں کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اب سیاسی مخالفین کو بدترین دشمن اور اختلاف رائے کرنے والوں کو ملک کا غدار بتایا جاتا ہے۔

Published: undefined

اب تک ہم دیکھتے تھے کہ عوامی جلسوں، ریلیوں اور پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ دی جاتی تھی۔ ان کو دہشت گرد اور انتہاپسند کہا جاتا تھا۔ ان کی نسل کشی کی کال دی جاتی تھی۔ ان کو دیکھ لینے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ ان کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی جاتی تھی۔ لیکن اب پارلیمنٹ کے اندر دیکھ لینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ ایک مسلم ایم پی کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ کوئی شریف آدمی جن الفاظ کا استعمال گلی محلے میں نہیں کر سکتا ان کا استعمال اب ایوان کے اند رہونے لگا ہے۔

Published: undefined

گوکہ اسپیکر نے رمیش بدھوڑی کے قابل اعتراض الفاظ کو ایوان کی کارروائی سے نکال دیا ہے لیکن وہ الفاظ پوری دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی صدائے بازگشت گونج رہی ہے۔ عالمی میڈیا ان الفاظ کا ذکر کرکے ہندوستان کے معزز رکن پارلیمنٹ کے کارناموں کو پوری دنیا میں عام کر رہا ہے۔ کیا اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی بدنامی نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کہ حکومت اور بی جے پی کے لوگوں کو ایسا لگتا ہو کہ اس واقعے سے ہندوستان کی نیک نامی ہو رہی ہے۔ لیکن دنیا اور انصاف پسند طبقہ اس طرح نہیں سوچتا جیسے کہ وہ لوگ سوتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined