عرب ممالک

گفتار کے غازی بن تو گئے کردار کے غازی بن نہ سکے...سہیل انجم

1973 میں شاہ فیصل کے تیل کو ہتھیار بنانے سے اسرائیل جھکنے پر مجبور ہو گیا تھا لیکن آج عرب لیگ صرف تقریروں تک محدود ہے۔ قطر پر حملے اور ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا

<div class="paragraphs"><p>دوحہ میں ہنگامی عرب-اسلامی اجلاس کے دوران رہنماؤں کی پریس کانفرنس / Getty Images</p></div>

دوحہ میں ہنگامی عرب-اسلامی اجلاس کے دوران رہنماؤں کی پریس کانفرنس / Getty Images

 
NurPhoto

اکتوبر 1973 میں مصر اور سیریا نے مصر کے جزیرہ نما سینائی اور سیریا کی گولان کی پہاڑیوں پر قابض اسرائیلی افواج کے خلاف ایک مشترکہ اور مربوط حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ چھ اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔ ان دونوں ملکوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ چھڑ گئی۔ لیکن اس جنگ نے طوالت نہیں پکڑی بلکہ صرف 19 دن میں ختم ہو گئی۔ تمام فریقوں کے درمیان سیزفائر سمجھوتہ ہو گیا۔ اس کی وجہ کیا رہی؟ صرف یہی کہ ان دونوں ملکوں نے اسرائیل کے خلاف اپنی متحدہ فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان ملکوں میں یہ جراْت و ہمت کیسے آئی تھی۔ اس وجہ سے آئی تھی کہ اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ فیصل نے اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکہ اور مغربی ملکوں کو تیل کی سپلائی بند کر دی تھی۔

شاہ فیصل کے اس فیصلے نے دیگر عرب ملکوں کی غیرت کو بیدار کیا۔ ان ملکوں کے پیٹرولیم وزرا نے کویت میں ایک اجلاس منعقد کیا۔ جس میں ’آرگنائزیشن آف عرب پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز‘ (اوپیک) نامی تنظیم قائم ہوئی۔ یہ فیصلہ مصر اور سیریا کی اسرائیل سے ہونے والی جنگ کے دوران کیا گیا۔ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ اور سوویت روس کے درمیان جوہری جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن سعودی عرب کی سربراہی میں کویت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں اوپیک کے قیام اور تیل کی سپلائی بند کرنے کے فیصلے کی وجہ سے مغربی ملکوں میں کساد بازاری پیدا کر دی تھی۔ جس کے نتیجے میں امریکہ، اسرائیل اور مغربی ملکوں کو جھکنا پرا تھا۔

Published: undefined

گزشتہ دنوں جب اسرائیل نے حماس کی قیادت پر حملے کی آڑ میں قطر پر حملہ کیا تو دنیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ قطر تو سیزفائر، جنگ بندی اور اسرائیل و حماس کے درمیان سمجھوتے کے لیے ثالثی کے فرائض انجام دے رہا تھا اور جس وقت حملہ ہوا حماس کی قیادت اس سلسلے میں دوحہ میں ایک مٹینگ میں مصروف تھی۔ لہٰذا اس حملے کے بعد خلیجی ملکوں میں اضطراب کی لہریں دوڑ گئیں۔ 1945 میں قائم ہونے والی 22 رکنی عرب لیگ میں بھی ہلچل مچ گئی اور دوحہ میں اس کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔ اس اجلاس پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ اسرائیل کے خلاف کوئی سخت فیصلہ کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ اسرائیل پر کوئی چھوٹا موٹا حملہ کرنے کا اعلان کر دیا جائے۔ لیکن بڑے ہی طمطراق سے منعقد ہونے والا اجلاس ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔ ان عرب ملکوں نے یہ دکھا دیا کہ :

نہ خنجر اٹھیں گے نہ تلوار ان سے

یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

اس اجلاس کا جو نتیجہ نکلا اس نے 1973 کے مذکورہ واقعے کی یاد دلا دی۔

Published: undefined

عرب لیگ نے اپنی روایت کے مطابق خوب گھن گرج کا مظاہرہ کیا۔ ایسی زوردار تقریریں کی گئیں کہ الامان و الحفیظ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بس اب یہ لوگ اٹھیں گے اور تیر و تفنگ و تلوار لے کر اسرائیل پر ٹوٹ پڑیں گے۔ لیکن اجلاس کے اختتام پر ایک بیان جاری کرکے اپنے اپنی خواب گاہوں اور عشرت کدوں میں پناہ لے لی گئی۔ البتہ اس بیان میں لفظوں اور جملوں کے میزائیل داغے گئے۔ ہمیشہ کی طرح بھرپور انداز میں اسرائیل کی مذمت کی گئی اور قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ 1973 میں تیل کو ہتھیار بنا کر جس طرح امریکہ، اسرائیل اور مغربی ملکوں کو جھکنے پر مجبور کیا گیا تھا اس کی مثال پھر دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملی۔ قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے کی جانے والی غیر معمولی پیش قدمی کے باوجود یہ ممالک تیل کو ہتھیار نہیں بنا سکے۔

یہی ممالک ہیں جنھوں نے ماضی میں اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لیے جراْت مندانہ قدم اٹھایا تھا لیکن اب یہی ممالک اس قدر پژمردہ ہو گئے ہیں کہ اسرائیل کے ہاتھوں تقریباً 70 ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت بھی، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، ان کے ضمیر کو بیدار کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اپنے آنگن میں موت کا رقص دیکھنے اور لاشوں کے ہمالیہ قائم ہونے پر بھی وہ احساس سے عاری ہیں اور ان پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسرائیلی افواج روزانہ سیکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں۔

Published: undefined

حالانکہ ماضی کے مقابلے میں آج ان ملکوں کے پاس کہیں زیادہ جدید ہتھیار ہیں۔ ان کے امریکہ سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بننے کے بعد سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔ امریکہ نے قطر کو اپنا بہت بڑا غیر ناٹو حلیف قرار دے رکھا ہے۔ قطر ایک ایسا ملک ہے جس نے مغربی ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی ٹھکانہ قائم کر رکھا ہے۔ لیکن امریکہ اسرائیل کو اپنی جارحیت سے نہیں روکتا۔ اس کے باوجود دوحہ میں اکٹھا ہونے والے عرب رہنماؤں نے صدر ٹرمپ سے ہی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ٹرمپ اسرائیل پر زور ڈالیں گے کہ وہ اپنا رویہ بدلے۔

دراصل اب حالات پہلے جیسے نہیں رہ گئے۔ یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ موجودہ عالمی نظام میں جہاں رشتے تجارت کی بنیاد پر بن رہے ہیں، عرب ملکوں کی جانب سے کوئی سخت فیصلہ خود ان کے اپنے مفادات کے خلاف ہوگا۔ عرب ملکوں کی بھی یہ کوشش ہے کہ ان کے یہاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری یا ایف ڈی آئی آئے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خطے میں امن ہو۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحانہ رشتوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

Published: undefined

اسرائیل کی جانب سے غزہ کو نیست و نابود کرنے کی وجہ سے پہلے ہی خطے میں غیر یقینی کے حالات ہیں۔ اگر خلیجی ملکوں نے کوئی انتہائی قدم اٹھایا تو حالات بد سے بدتر ہو جائیں گے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تناظر میں غیر ملکی کمپنیوں کو بھی یہ امید ہے کہ وہاں ان کو سرمایہ کاری اور تجارت کے مواقع ملیں گے۔ لہٰذا وہ بھی نہیں چاہتیں کہ صورت حال مزید خراب ہو۔

تاہم ان حقائق کے باوجود تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عرب اور خلیجی ملکوں کو کچھ تو اپنی ریڑھ کی ہڈی دکھانی چاہیے۔ انھیں ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جس سے امریکہ پر کچھ دباو پڑے اور وہ اسرائیل پر زور ڈالے۔ صرف ٹرمپ سے فریاد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ نہ کچھ تو ان ملکوں کو بھی کرنا پڑے گا۔ لیکن عرب لیگ اجلاس کے نتائج کے بعد کسی ٹھوس کارروائی کی امید لگانا ایک فضول بات ہوگی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined