سماج

نیپال اپنے اتنے زیادہ شہریوں کو مشرق وسطیٰ کیوں بھیجتا ہے؟

بدسلوکی اور استحصال کے امکانات اور واقعات کے باوجود ہر سال لاکھوں نیپالی تارکین وطن مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں۔

نیپال اپنے اتنے زیادہ شہریوں کو مشرق وسطیٰ کیوں بھیجتا ہے؟
نیپال اپنے اتنے زیادہ شہریوں کو مشرق وسطیٰ کیوں بھیجتا ہے؟ 

کمار تھاپا، ایک 41 سالہ تارکین وطن ورکر ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں نو برس تک محنت مزدوری کرنے کے بعد سن 2018 میں نیپال واپس لوٹے۔

Published: undefined

سعودی عرب میں ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتے ہوئے وہ تقریباً 98 ڈالر ماہانہ بچالیتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھیجتے تھے۔ یہ رقم ان کے بچوں کی تعلیم کے علاوہ سندھوپال چوک ضلع میں ان کے آبائی قصبے میں ایک چھوٹے سے مکان کی تعمیر پر خرچ کی گئی۔ تھاپا کا خاندان مشرقی وسطیٰ سے ہونے والی اس آمدنی سے مجموعی طور پر ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے قابل تھا۔

Published: undefined

لیکن ان کی کہانی ایک عمومی اصول سے کہیں زیادہ استشنائی ہے۔ بہت سے نیپالی جو کام کی تلاش میں مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں جاتے ہیں انہیں وہاں بڑے پیمانے پر بدسلوکی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

Published: undefined

حکومت کے لیبر مائیگریشن رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2008 سے اب تک کم از کم 7467 تارکین وطن بیرون ملک ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں 750 مزدوروں کی موت سن 2018 اور 2019 کے درمیان ہوئی۔ ان اعداد و وشمار میں ان ورکرز کی تعداد شامل نہیں ہے جو غیر قانونی چینلز کے ذریعہ مہاجرت کرکے جاتے ہیں۔ اور اس میں بھارت میں کام کرنے والے نیپالی مزدوروں کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔

Published: undefined

'کفالہ نظام' استحصال کا بڑا ذریعہ

بھرتی کرنے والی ایجنسیاں ممکنہ تارکین وطن کارکنوں کو تلاش کرنے کے لیے بالعموم ثالثیوں کو تعینات کرتی ہیں۔ وہ کارکنوں کی خدمات حاصل کرنے اور انہیں منافع بخش ملازمتوں کا وعدہ کرنے کے لیے باقاعدگی سے دھوکہ دہی یا دھمکی کا استعمال کرتے ہیں۔

Published: undefined

اگرچہ میزبان ممالک عام طور پر آجروں سے بھرتی فیس ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن یہ خرچ وہ اکثر ورکرز پر ڈال دیتے ہیں، جنہیں اخراجات کی ادائیگی کے لیے قرض بھی لینا پڑتا ہے۔ اس طرح ورکرز اپنا ملک چھوڑنے سے پہلے ہی ہزاروں ڈالر کے بھاری قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔

Published: undefined

جب وہ اپنے میزبان ملک میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کے کفالہ یا اسپانسر شپ نظام کے حصے کے طورپر اپنی نقل و حرکت اور آزادیوں پر سخت پابندیوں میں جکڑ جاتے ہیں۔ کفالہ سسٹم دراصل آجروں کو تارکین وطن کارکنوں کی ملازمت اور امیگریشن پر مکمل کنٹرول فراہم کرتا ہے۔

Published: undefined

تارکین وطن ورکرز کے میزبان ملک پہنچتے ہی آجر ان کے پاسپورٹ، ویزے اور فون ضبط کرلیتے ہیں اور بعض اوقات ان کی اجرت میں کمی کردیتے ہیں یا اسے روک بھی لیتے ہیں۔ گھریلو ملازمین کو گھروں تک محدود رہنا پڑتا ہے، جب کہ تعمیراتی اور صنعتی مقامات پر کام کرنے والے مزدوروں کو چھوٹے او ربھیڑ بھاڑ والے ڈورمیٹری میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ صنفی بنیاد پر تفریقی سلوک کے واقعات بھی اکثرہوتے رہتے ہیں اور بہت سے خواتین گھریلو ملازماوں کو جنسی تشدد سمیت بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Published: undefined

نیپال کی معیشت کا انحصار ترسیلات زر پر

خطرات اور استحصال کے امکانات کے باوجود مشرق وسطیٰ کے ممالک ہر سال لاکھوں نیپالی مہاجر مزدوروں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ گزشتہ برس ہی 620000 نیپالی ورکرز اس خطے میں منتقل ہوئے۔

Published: undefined

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملازمتوں میں نیپال میں اسی طرح کی ملازمتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تنخواہوں کی پیش کش کی جاتی ہے۔ ملازمت حاصل کرلینے کے بعد بہت سے کارکنان ترسیلات زر اپنے وطن میں گھر والوں کو بھیجتے ہیں، جو اب نیپال کی مجموعی اقتصادی پیداوار کا 25 فیصد ہے۔

Published: undefined

نیپال ترسیلات زر پرسب سے زیادہ منحصر دنیا کا پانچواں ملک ہے اور ترسیلات زر نے بڑی تعداد میں گھرانوں کو غربت سے نکالنے میں مدد کی ہے۔ ملک میں گزشتہ ایک دہائی سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہونے کے باوجود بیرونی ملکوں سے آنے والی نقدی ایک طویل عرصے سے معیشت کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔

Published: undefined

ترسیلات زر پر زیادہ انحصار کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ایسے اقدامات سے گریز کرتی ہے جس سے ان ممالک کی طرف ہجرت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں نیپال میں نقدی کا بہاو متاثر ہوسکتی ہے۔ بھرتی کرنے والی ایجنسیاں نیپالی حکومت سے لابنگ بھی کرتی ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان کی سرگرمیوں پر کوئی روک نہ لگ جائے۔

Published: undefined

مہاجر مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم پرواسی نیپالی کوارڈی نیشن کمیٹی (پی این سی سی) کے صدر کل پرساد کارکی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "فارن ایمپلائمنٹ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ بھرتی کرنے کی تجارت کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ کمپنیاں اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں کرتیں کہ ورکرز کے حقوق کا احترام کیا جا رہا ہے یا نہیں یا جب کبھی معاہدہ ہوجانے کے باوجود ورکر کو کم تنخواہ ملتی ہے تب بھی وہ خاموش رہتی ہیں۔"

Published: undefined

بھاری انسانی قیمت

بڑے پیمانے پر نقل مکانی، مہاجرت اور ترسیلات زر پر انحصار کرنے والی معیشت کے سماجی اور اقتصادی فوائد کے باوجود، نیپال کو اس کی بھاری انسانی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ یہ خدشہ بھی ایک حد تک درست ثابت ہورہا ہے کہ یہ نظام ملک کے سماجی تانے بانے میں خلل ڈال رہا ہے۔

Published: undefined

بہت سے شوہروں کے طویل عرصے سے بیرون ملک کام کرنے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نے روایتی مشترکہ خاندانوں سے "نیوکلیئر فیملی" کی طرف تبدیلی کو بھی تیز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں، بالخصوص دیہی علاقوں میں، بہت سے بزرگوں کا دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہ گیا ہے۔

Published: undefined

تارکین وطن کارکنوں کی بہتری کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'پوراکھی نیپال' کی شریک بانی منجو گورنگ کا کہنا تھا، ''ہجرت ایک فطری عمل ہے اور یہ ایک انتخاب ہے۔ لیکن ہر ایک کو اس بارے میں آگاہ کیا جانا چاہئے کہ یہ ایک فرد کی زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے۔"

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined