سماج

بچوں میں موبائل فون کا بے تحاشا استعمال اور اس کے نقصانات

ایک سروے کے مطابق پچھلی صدی کی سب سے بہترین اور بدترین ایجاد موبائل فون ہے۔ بات کچھ عجیب لگتی ہے کہ ایک ہی چیز ایک ہی وقت میں فائدہ مند اور نقصان دہ کیسے ہو سکتی ہے؟

بچوں میں موبائل فون کا بے تحاشا استعمال اور اس کے نقصانات
بچوں میں موبائل فون کا بے تحاشا استعمال اور اس کے نقصانات 

اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ایجاد کو اس کا استعمال اچھا یا برا بناتا ہے۔ موبائل فون نے، جہاں رابطوں کو آسان کیا ہے، وہیں اس کے بے جا استعمال نے بہت سی نفسیاتی الجھنوں کو بھی جنم دیا ہے۔

Published: undefined

بات تب خطرناک ہو جاتی ہے، جب ایک چھ ماہ کے بچے کو بہلانے کے لیے موبائل کی اسکرین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بچے کا ذہن، جس کے لیے ہر رنگ برنگی اور حرکت کرتی چیز کشش اور سکون کا باعث ہوتی ہے، وہ اس کی جانب کھنچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ والدین اسی بات کو سکون سمجھ کر سکھ کا سانس لیتے ہیں بنا یہ جانے کہ وہ خود اپنے بچے کے لیے ایسا شکنجہ تیار کر رہے ہیں، جس سے نکلنا نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔

Published: undefined

ایک تحقیق کے مطابق بچوں کا ذہن بڑوں کے مقابلے میں دو گنا ریڈیو ایکٹیو ویویز جذب کرتا ہے اور یہی لہریں بون میرو بڑوں کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ جذب کرتا ہے۔ اسی لیے موبائل اسکرین کا ابتدائی عمر میں استعمال اور بے تحاشا استعمال بہت سی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

Published: undefined

آٹزم کا نام ہم آج کل بہت سن رہے ہیں۔ 2020ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ایک سال یا اس سے کم عمر بچے کے زیادہ موبائل اسکرین استعمال کرنے سے آٹزم کا خطرہ ہوتا ہے، جو تین سال کی عمر میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے، جب بچہ اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے۔ نتیجتاً اسکول میں بچہ ساتھی بچوں سے لڑتا ہے اور پڑھائی پر توجہ نہیں دے پاتا اس لیے اس کو کند ذہن قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہماری مشرقی سوسائٹی میں ایسے بچے ماں باپ کی طرف سے نہ پڑھنے کی وجہ سے تشدد کا شکار ہوتے ہیں حالانکہ وجہ والدین نے خود پیدا کی ہوتی ہے۔

Published: undefined

موبائل سکرین استعمال کرنے کے لیے آنکھوں کو نامحسوس انداز سے سکیڑنا پڑتا ہے، جو بچے کی نظر پر بوجھ ڈالتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے نظر کمزور ہو جاتی ہے۔

Published: undefined

نیند کی کمی بھی ایک اہم بیماری کے طور پر سامنے آئی ہے، جو موبائل فون کے استعمال سے ہوتی ہے۔ اصل میں بچوں میں تجسس بہت پایا جاتا ہے۔ اس لیے وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر موبائل چیک کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے ذمہ دار وہ والدین بھی ہیں، جو موبائل پر الارم لگا کر اس کو تکیہ کے ساتھ یا اس کے نیچے رکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک بچے کا ذہن ان ریڈیو ایکٹیو ویویز کو زیادہ جذب کرتا ہے۔ ایسے الارم بھی ان کی نیند کی کمی کی وجہ بنتے ہیں۔

Published: undefined

اس کے علاوہ موبائل پر زیادہ وقت جھکے رہنے سے گردن اور ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی الائنمٹ بھی متاثر ہوتی ہے، جس سے گردن اور کمر میں درد یا کھڑے ہونے کا انداز متاثر ہوتا ہے۔ زیادہ وقت موبائل کا استعمال کرنے سے بچے آس پاس کے لوگوں میں کم گھلتے ملتے ہیں، جس سے ان کو رویوں کا احساس نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ سے وہ مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے معاشرتی رویوں میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

2019ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بچوں کے لیے کچھ گائیڈ لائنز مرتب کیں، جن میں ان کی جسمانی اور ذہنی ایکٹویٹی پر زور دیا ہے۔ جبکہ پانچ سال کی عمر تک موبائل کا استعمال کم سے کم کروانے پر زور دیا گیا ہے۔

Published: undefined

اس کے علاوہ ایک سال یا ایک سال سے کم عمر بچوں کو موبائل سکرین سے متعارف کروانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ امریکہ کی اکیڈمی آف پیڈریاٹکس کی تجاویز کے مطابق 18 ماہ سے کم عمر بچے کو موبائل سکرین استعمال نہیں کروانا چاہیے کیونکہ یہ اس کی ذہنی و جسمانی صحت اور بڑھوتری پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

Published: undefined

اگر آپ کا بچہ کچھ بڑا اور سمجھدار ہے تو اس کے موبائل کے استعمال کرنے کا وقت مقرر کریں اور جب بھی وہ موبائل استعمال کرے، اس پر نظر رکھیں تاکہ وہ گردن نہ زیادہ جھکائے اور سکرین کو آنکھوں کے قریب نہ کر لے۔ اس کے علاوہ بچہ کیا دیکھتا ہے اس پر بھی نظر رکھیں۔ کوشش کریں کہ بچہ تعلیمی مواد دیکھے تاکہ وہ وقت، جو وہ موبائل کو دے رہا ہے، اس دوران کچھ سیکھے بھی۔ اس کے لیے آپ سکرین ٹائم سیٹ کرنے کی یا مواد تک رسائی کی ایپس بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

بچوں کی جسمامی سرگرمی بڑھا دیں تاکہ ان کے جسم کو اور دماغ کو زیادہ سے زیادہ مصروفیت ملے اور ان کی توجہ سکرین کے استعمال کی جانب نہ جائے۔ اگر والدین تھوڑی توجہ مزید بچوں پر مرکوز کریں توان کو ایکٹویٹی بیس لرننگ کی جانب راغب کریں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ان کے اندر کوئی مشغلہ اپنانے کا شوق پیدا کریں، جیسے ڈرائنگ، باغبانی، آرٹ ورک وغیرہ تاکہ وہ مصروف رہیں۔

Published: undefined

اگر ہو سکے تو والدین کو چاہے کہ جب تک ان کے بچے سمجھداری کی عمر کو نہیں پہنچتے، خود اپنا سکرین ٹائم کم کر دیں۔ یہاں ایک بات بتاتی چلوں کہ میں بھی ایک ایک سالہ بیٹی کی ماں ہوں، میں نے اب تک اپنی بیٹی کو موبائل استعمال نہیں کرنے دیا نہ اس کو چپ کروانے کے لیے کبھی اس کا استعمال کیا ہے۔

Published: undefined

اپنا کام چھوڑ کر اس کے ساتھ کھیلتی ہوں تاکہ وہ گیجٹس کی طرف متوجہ نہ ہو۔ اپنے ملنے جلنے والوں کو بھی منع کرتی ہوں، جو اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے موبائل کا سہارا لیتے ہیں۔ خود صرف فون سے کال سننے کا کام کرتی ہوں وہ بھی سپیکر آن کر کے۔ غرض یہ کہ بچوں کو ابتدائی عمر میں موبائل سے دور رکھنا مشکل تو ہے ناممکن نہیں۔

Published: undefined

میری نظر میں موبائل کمپنیز کو کڈز فرینڈلی موبائلز پر کام کرنا چاہیے کیونکہ ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں کو ٹیکنالوجی سے زیادہ دیر دور رکھنا ناممکن ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined