سماج

امریکہ نے چینی ٹیلی کام اور نگرانی والے کیمروں پر پابندی لگادی

امریکی جاسوسی امور کے سربراہوں نے متنبہ کیا تھا کہ امریکہ اقتصادی جاسوسی یا ڈیجیٹل تخریب کاری کا شکار ہو سکتا ہے۔ جس کے بعد چینی ٹیک کمپنیوں کی مصنوعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

امریکہ نے چینی ٹیلی کام اور نگرانی والے کیمروں پر پابندی لگادی
امریکہ نے چینی ٹیلی کام اور نگرانی والے کیمروں پر پابندی لگادی 

امریکی ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹرز نے چینی ٹیلی کمیونیکیشن اور ویڈیو سرویلنس آلات سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے جمعہ 25 نومبر کو ٹیک کمپنیاں ہواوے، زیڈ ٹی ای اور سرویلینس کیمرہ ساز کمپنیاں ہائک ویژن اور داہوا کی مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔

Published: undefined

یہ فیصلہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے بیجنگ کی ممکنہ جاسوسی کے بارے میں اٹھائے گئے خدشات اور کانگریس کی جانب سے گزشتہ برس منظور کردہ ایک قانون کے بعد کیا گیا ہے۔

Published: undefined

امریکی قانون سازوں نے اس بات پر بھی تنقید کی ہے کہ کس طرح چینی ٹیکنالوجی کو بیجنگ حکام اپنے ملک میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

Published: undefined

امریکہ نے کیا اعلان کیا؟

امریکی ٹیلی کام ریگولیٹر، فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن (ایف سی سی) نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے ملک کے مواصلاتی نیٹ ورک کی حفاظت کے لیے نئے قوانین کو اپنایا ہے۔ بیان کے مطابق چینی ٹیک کمپنیاں ہواوے ٹیکنالوجیز اور زیڈ ٹی ای کارپوریشن کے تیار کردہ آلات پر پابندی ہوگی۔ یہ دونوں کمپنیاں پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکی پابندیوں کی زد میں آچکی تھیں۔

Published: undefined

نئے قوانین کا اطلاق ہائیک ویژن اور داہوا پر بھی ہوگا، جن کے تیار کردہ ویڈیو سرویلنس کیمرے پوری دنیا میں نصب ہیں۔ لیکن ان سے رازداری کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ دو طرفہ بات چیت کے لیے استعمال ہونے والے ریڈیو بنانے والی کمپنی ہائٹیرا پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

Published: undefined

امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ ان کمپنیوں، جو کہ چین کے قومی انٹیلی جنس قوانین کے تابع ہیں، کو بیجنگ کی سکیورٹی سروسز کو معلومات دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ان کمپنیوں نے اس کی تردید کی ہے۔ ہائیک ویژن کے کیمروں کو چین کے سنکیانگ صوبے میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے جوڑا گیا ہے۔

Published: undefined

ایف سی سی کی چیئر پرسن جیسیکا روزن ورسیل کا کہنا تھا، ''ایف سی سی ہماری قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ ناقابل بھروسہ مواصلاتی آلات کو ہماری سرحدوں کے اندر استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ نئے قوانین امریکی عوام کو ٹیلی مواصلات سے متعلق قومی سلامتی کے خطرات سے بچانے کے لیے ہماری مسلسل کارروائیوں کا ایک اہم حصہ ہیں۔‘‘

Published: undefined

’بے مثال قدم‘

ایف سی سی کے کمشنر برینڈن کار نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں اسے ایک ''بے مثال قدم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ریگولیٹر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایگزیکٹیوز نے قومی سلامتی کے خدشات پر نئے آلات کی ممانعت کے حق میں ووٹ دیا۔

Published: undefined

انہوں نے کہا، ''اس حکم کے نتیجے میں ہواوے یا زیڈ ٹی ای کے نئے آلات کی تنصیب کی منظوری نہیں دی جاسکتی اور داہوا، ہائیک ویژن یا ہائٹرا کے آلات کو اس وقت تک منظور نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وہ ایف سی سی کو یہ یقین نہ دلا دیں کہ ان کے آلات عوامی تحفظ، سرکاری تنصیبات کی سکیورٹی اور دیگر قومی سلامتی کے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔‘‘

Published: undefined

برطانیہ کی چینی ساختہ کیمروں پر پابندی کا فیصلہ

جمعرات 24 نومبر کو برطانوی حکومت نے اپنی وزارتوں کو ممکنہ سکیورٹی خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے حساس عمارتوں کے اندر چینی ساختہ سکیورٹی کیمرے لگانے سے روکنے کا حکم جاری کیا تھا۔

Published: undefined

برطانوی وزیر اولیور ڈاؤڈن نے پارلیمنٹ کو اپنے ایک تحریری بیان میں بتایا، ''سکیورٹی جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ برطانیہ کو لاحق خطرات اور ان سسٹمز کی بڑھتی ہوئی صلاحیتیں اور ان کے روابط کی روشنی میں، اضافی کنٹرول کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مختلف وزارتوں کو ان کیمروں کو اپ گریڈ کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے ان کو تبدیل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

Published: undefined

گزشتہ جولائی میں پرائیویسی ایڈووکیسی گروپ 'بگ برادر واچ‘ نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت کے زیر استعمال زیادہ تر سرویلنس کیمرے دو چینی کمپنیوں، 'ہیک ویژن‘ اور 'داہوا‘ کے تیار کردہ ہیں۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے فوراً بعد 67 برطانوی قانون سازوں نے چینی حکومت کی جزوی طور پرملکیت والی دونوں کمپنیوں کے ذریعے تیار کردہ ان آلات پر مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سن 2020 میں ڈی ڈبلیو نے انکشاف کیا تھا کہ یورپی یونین برسلز میں اپنی عمارتوں پر نصب ہائیک ویژن کے تھرمل امیجنگ کیمروں کو کووڈ انیس کی علامات کی اسکریننگ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined