سماج

فلسطینی نوجوانوں کی ڈجیٹل دنیا

غرب اردن میں دیواریں، ناکہ بندی اور حفاظتی چوکیاں زندگی کا حصہ ہيں۔ مگر اب کچھ اختراعی کاروباری افراد ان سرحدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈجیٹالائزیشن کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملا رہے ہیں۔

فلسطینی نوجوانوں کی ڈجیٹل دنیا
فلسطینی نوجوانوں کی ڈجیٹل دنیا 

روان علوی کو اپنے بزنس کی تفصیلات جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ انہوں نے اپنا موبائل فون ہاتھ میں لیا اور رملہ اور فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام غرب اردن اور دیگر علاقوں کی سڑکوں پر ہونے والی چہل پہل کے مناظر دکھائے۔

Published: undefined

علوی کی تصاویر میں کسی ملازمت یا دھاڑی کے انتظار میں بیٹھے یا کھڑے ہوئے مردوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تعمیراتی شعبے کے بے روزگار شہری ہیں۔ روان علوی کے بقول، ''فلسطین میں اس طرح بہت سے لوگ کسی بھی کام کی تلاش میں رہتے ہیں۔‘‘ دوسری جانب تعمیراتی کمپنیاں بھی ہیں، جنہیں تربیت یافتہ مزدوروں کی ضرورت ہے اور وہ ان بے روزگار افراد تک نہیں پہنچ پاتیں۔

Published: undefined

حالات میں انہیں Amalwork.com نامی ایک ڈجیٹل مہم شروع کرنے کا خیال آیا۔ یہاں پر مزدور اور کمپنیاں اپنا اپنا اندراج کرا سکتے ہیں اور ایک دوسرے رابطے کر سکتے ہیں۔ اس طرح طلب اور رسد کو بہتر طور پر مربوط کیا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

علوی نے اپنے والد کے ساتھ یہ اسٹارٹ اپ کمپنی کھولی اور پہلے دو ماہ کے دوران چھ سو سے زائد مزدوروں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق خود کو اس پلیٹ فارم پر رجسٹر کرایا۔ مزدور کو نوکری ملنے کے بعد روان علوی کمپنی سے اپنی خدمات کی فیس لیتی ہیں۔

Published: undefined

اس نوجوان فلسطینی کا خیال ہے کہ بظاہر دکھائی دینے والی سرحدوں کو ڈجیٹلائیزیشن کے ذریعے عبور کیا جا سکتا ہے،''ہم سرحدوں کے آر پار کام کرتے ہیں۔‘‘ وہ ان مزدوروں کو اسرائیل میں کام دلوانا نہیں چاہتیں کیونکہ روزگار کا اجازت نامہ ملنا بہت مشکل ہے۔

Published: undefined

امانی ابو طیر یروشلم میں Wazza.Inc کی سربراہ ہیں۔ ان کے بقول، ''اختراع کے میدان کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہم دنیا کو ایک چھوٹا سا گاؤں سمجھتے ہیں اور ہم انٹرنيٹ کے ذریعے سب تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ ابو طیر کو کئی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ وازا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے طلبہ کی مدد کرتا ہے، ''ہم اپنا مستقبل بنانے کے لیے بہت سخت محنت کر رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

تاہم امانی ابو طیر کے لیے یروشلم سے رملہ تک پہنچنا بہت مشکل ہے کیونکہ راستے میں متعدد حفاظتی چوکیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں تاہم ڈجیٹل دنیا میں انہیں سرحد عبور کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined