سماج

پاکستان میں فی کس آمدنی ایک دہائی میں تیسری مرتبہ کم ترین سطح پر

پاکستان کی موجودہ مجموعی صورتحال کی عکاسی معاشی اعداد وشمارسے بھی ہو رہی ہے۔ ان اعداد و شمار سے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں فی کس آمدنی ایک دہائی میں تیسری مرتبہ کم ترین سطح پر پہنچ چُکی ہے۔

پاکستان میں فی کس آمدنی ایک دہائی میں تیسری مرتبہ کم ترین سطح پر
پاکستان میں فی کس آمدنی ایک دہائی میں تیسری مرتبہ کم ترین سطح پر 

ملک کی تاریخ کے بدترین سیاسی بحران کیساتھ ساتھ اس وقت ملک کو درپیش شدید معاشی بحران معاشی اعداد و شمار سے بھی واضح ہے۔ گزشتہ دنوں نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی منظوری حاصل کرنے والے اعداد وشمار کے مطابق ملکی معیشت میں رواں مالی سال میں صرف 0.29 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جو تحریک انصاف حکومت کے گزشتہ برس کی 6.1 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں نمایاں طورپر کم رہی ہے۔ معیشت کا حجم مالی سال 2023 ء کے دوران کم ہو کر 341 ارب 55 کروڑ ڈالر رہ گیا جو گزشتہ برس 375 ارب 44 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ماہرین کے نزدیک سب سے تشویشناک بات رواں مالی سال میں فی کس آمدنی میں 198 ڈالرزکی گراوٹ ہے۔

Published: undefined

عام آدمی کتنا متاثر ہوا؟

پاکستان ایک دہائی میں تیسری مرتبہ سب سے کم فی کس آمدنی والا ملک بن گیا ہے۔ مالی سال 2023 ء میں فی کس آمدنی کم ہو کر 1568 ڈالر رہ گئی، جو گزشتہ برس 1766 ڈالر تھی۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ معاشرے کے تقریباً تمام طبقات کا معیار زندگی گررہا ہے اورلوگوں کے پاس اشیا خریدنے یا خدمات حاصل کرنے کی استطاعت محددو ہوگئی جس کی وجہ سے مجموعی طور پرمعیشت میں سست روی کا رجحان ہے ۔

Published: undefined

ماہرمعاشیات سارہ توقیر نے ڈی ڈبیلو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہوں میں اس حساب سے اضافہ نہیں ہوا جس حساب سے مہنگائی بڑھی ہے۔ اس وجہ سے شہریوں کی قوت خرید محدود ہوئی اوراسی کی وجہ سے ڈیمانڈ میں کمی آگئی۔ مہنگائی تاجروں کے لیے کاروباری اخراجات میں بھی اضافے کا سبب بنی جو کہ صارفین سے ہی وصول کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

حکومت کی معاشی پالیسی کی ناکامی

ماہرمعاشیات سارہ توقیرنے حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کو موجودہ حالات کا ذمہ دارقراردیتے ہوئے کہا کہ سخت مانیٹری پالیسی اورشرح سود میں بے تحاشہ اضافے کے باعث کاروباری اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے کمی آئی ۔ ان حالات میں کوئی مشینری لینا تو دور کوئی گاڑی بھی نہیں خریدتا ۔ پابندیوں اورایل سیز کے معاملے کے بعد درآمدات میں ریکارڈ کمی ہوئی جس کے باعث امپورٹ ڈیوٹیزاوردیگرٹیکس کی مد میں روینیو میں بھی خاصی کمی ہوئی ہے جو حکومتی آمدنی کا ذریعہ ہے۔

Published: undefined

بجٹ میں عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں ؟

معاشی امور کی معروف تجریہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں حکومت بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرے گی کیوں کہ آگے الیکشن ہونے کو ہیں۔ ان کا کہنا تھا،''پاکستان اس وقت سول مارشل لا میں ہے لیکن کتنے عرصے تک آپ یہ جوکچھ بھی ہورہا ہے اس کو چلائیں گے۔ یہ پالیسی پائیدار نہیں ہوتی۔ ضیاء الحق جیسے آمرکے ساتھ بھی یہ نظام پائیدارنہیں تھا نہ ہی مشرف دور میں یہ پائیدار ثابت ہوا۔‘‘

Published: undefined

حکومتی پالیسیوں کا موجودہ حالات میں عمل دخل

ڈاکٹرہمابقائی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت ہرپالیسی ناقص ہے اور اس کا تعلق پاکستان کے ہر اس ادارے پر اشرافیہ کے قبضے سے جڑتا ہے، جو ملک کی بہتری کے لیے کام کرسکتا ہے ۔ پاکستان کا ہرادارہ جس کے پاس طاقت ہے ، وہ ریاست کے لیے کام نہیں کرتا وہ اپنے گروہ کے لیے کام کرتاہے۔ وہ اُن چند لوگوں کے لیے کام کرتا ہے اور ان کے ساتھ رابطے بناتا ہے جو اس اسٹیٹس کو کو نہ چھیڑیں۔

Published: undefined

کوئی بھی جو اسٹیٹس کو کے چیلنج کرتا ہے یہ اس کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔ روز جو ٹی وی پرلوگ اپنا سیاسی قبلہ بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ صرف آج اورکل کی بات نہیں بلکہ یہ وہ مسلسل ہونے والی پولیٹیکل انجینرنگ ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ یہ اب اسّی اورنوے کی دھائی نہیں۔ لوگ بات کررہے ہیں مسلسل باتیں سامنے آرہی ہیں آپ ٹی وی پرپابندی لگادی لوگ ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز پر بات کررہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

جی ڈی پی گروتھ میں کمی کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟

معاشی تجزیہ نگار ذیشان مرچنٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس وقت آپ کے کاروبار نیچے جارہے ہیں اوربیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ جب بیروزگاری بڑھتی ہے اورملک کا پہیہ نہیں چلتا تو آپ کی گروتھ کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں کاروبارنہیں ہورہا اوراس کی وجہ سے پھرٹیکسزکی وصولی کم ہوگی جس کے باعث حکومت کا ریونیوکم ہوگا تو اخراجات کیسے پورے ہونگے، تو یہ سب ایک دوسرے سے منسلک ہے۔‘‘

Published: undefined

ڈالرکی قدرمیں اضافے سے عام آدمی کیسے متاثرہوتا ہے؟

معاشی تجزیہ نگار ذیشان مرچنٹ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عام آدمی دن بدن پریشان ہورہا ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی اورمہنگائی اس لیے بڑھ رہی ہے کہ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر روزبروز گررہی ہے ۔ روپے کی قدرگرنے کی وجہ سے جو بھی چیز جو آپ بیرون ملک سے درآمد کرتے ہیں وہ مہنگی ہوتی ہے اس میں آپ کی پیٹرولیم مصنوعات سے لیکرکھانے کے تیل اوربہت سی دیگر اشیا آجاتی ہیں۔ چیزیں تو مہنگی ہورہی ہیں لیکن قوت خرید نہیں بڑھ رہی اس لیے انفلیشن ہے، جس کا اثر ایک عام آدمی پرپڑتا ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined