سماج

سائبر کرائم، محافظ ہی عورت کے استحصال کی وجہ؟

ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں ایف آئی اے میں سائبر کرائم ونگ تو بنا دیا گیا مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ لیک سیکس ویڈیوز کے کیسز میں پرائیویسی کا خیال رکھا جاتا ہے؟

سائبر کرائم، محافظ ہی عورت کے استحصال کی وجہ؟
سائبر کرائم، محافظ ہی عورت کے استحصال کی وجہ؟ 

فضل آمین، مظفرآباد آزادکشمیر میں حبیب بینک کے ریجنل ہیڈ تھا۔ تقریبا تین سال قبل فضل آمین کے کردار کے حوالے سے تب شور بلند ہوا جب اچانک دو خواتین کی ان کے ساتھ سیکس ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نے اسی وجہ سے خودکشی کر لی۔ فضل آمین کو گرفتار کیا گیا اور ان کے موبائل سے لاتعداد بچیوں کی برہنہ ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔

Published: undefined

ماریہ نقوی اس کیس میں خودکشی کرنے والی لڑکی کی دوست ہیں اور ان کا کہنا ہے ان کی دوست بچ سکتی تھی مگر اس کے والدین نے اسے اس لیے مرنے دیا کہ ایسی ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ زندہ رہی بھی تو ابتر زندگی اسکا مقدر ہو گی۔ ماریہ کا کہنا ہے اس شخص نے لڑکیوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر بہت سی بیٹیوں کی عزتیں پامال کی ہیں۔ یہ کیس 2023 میں دوبارہ تازہ دم ہوا جب فضل آمین کو ڈھیروں ویڈیو اور تصاویری ثبوت ہونے کے بعد اچانک آزاد کشمیر کی عدالت نے با عزت بری کر دیا۔

Published: undefined

پاکستان میں ویڈیو لیکس کا بھیانک سلسلہ جنرل مشرف کے دور میں تیز ہوا۔ جب جج حضرات سے اپنی مرضی کے فیصلے لکھوانے کے لیے انہیں خواتین کے ذریعے جال میں پھنسایا جاتا تھا اور پھر ان کی سیکس ویڈیوز بنا کر ان کی ڈور اپنے ہاتھوں میں لی جانے لگی۔ انٹرنیشنل نیوز میڈیا اس پر ایک مکمل رپورٹ بھی پبلش کر چکا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں ایف آئی اے میں سائبر کرائم ونگ تو بنا دیا گیا مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سیکشن 20 اور 21 کے تحت درج شکایات کا حل بھی کیا جارہا ہے یا نہیں۔

Published: undefined

شاہ فہد، وکیل ہیں اور پچھلے تین سال سے اسلام آباد میں پیکا لا کے تحت سیکشن 20 اور 21 کے کیسز کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق سیکشن 20 کے تحت درج کیسز میں سب سے زیادہ تعداد کام کرنے والی خواتین کی ہے۔ شاہ فہد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو لیکس کے کیسز کو ایف آئی اے میں درج کرواتے ہوئے خواتین مزید خوف زدہ ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے لیے پرائیویٹ کورٹس نہیں ہیں۔ جب مقدمہ اوپن کورٹ میں سنا جاتا ہے تو ہمارا معاشرہ متاثرہ خاتون کے لیے زمین مزید تنگ کر دیتا ہے۔

Published: undefined

ملیحہ سید ایک صحافی ہیں۔ موٹروے ریپ کیس پر انہوں نے ویڈیو بنائی تو انہیں وکٹم سمجھا جانے لگا۔ ملیحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ سوشل میڈیا کیمپین ان کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنی لیکن انہوں نے ایف آئی اے آفس سے رابطہ کیا اور ان کی شکایت کو فوری طور پر حل کیا گیا۔ لیکن سوال پھر بھی یہ اٹھتا ہے کہ سمارٹ موبائلز اور انٹرنیٹ کی عام آدمی تک پہنچ نے جہاں خواتین کے اعتماد کو توڑنے کی کوشش کی ہے وہاں ہمارا عدالتی نظام کیا انصاف کے ترازو کو برابر کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟

Published: undefined

کینگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور کا بہت بڑا تدریسی ادارہ ہے۔ چند ہفتے قبل اس یونیورسٹی کی ایک طالبہ جس کا تعلق پشاور سے ہے اپنا واش روم استعمال کر رہی تھی تب اچانک اس کی نظر اوپر کی طرف پڑی تو چھت اور دیواروں کے درمیان خلا میں سے کوئی اس کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ طالبہ فورا اسے پکڑنے بھاگی تو وہ کالج کا چپڑاسی تھا جس نے اس طالبہ کی دو ویڈیوز بنائی تھیں۔ لیکن یہ معاملہ بھی دبا دیا گیا۔

Published: undefined

سمیرا نے سیکشن 20 کے تحت ایف آئی اے اسلام آباد میں اپنا کیس درج کیا۔ اس کی پرائیویٹ ویڈیوز اس کے دوست نے تعلق ختم ہونے کے بعد تقریبا 60 ویب سائٹس کو بیچیں۔ جب یہ کیس ایف آئی اے پہنچا تو سمیرا کے لیے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آفس کا گیٹ کیپر تک اس کے کیس کے متعلق جانتا تھا۔ یعنی جس ڈیٹا کے تحفظ کے لیے سمیرا نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا وہ ڈیٹا اس ادارے سے بھی لیک ہوا۔

Published: undefined

شاہ فہد کہتے ہیں کہ پیکا لا کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ عموما سیکشن 20 کے تحت آنے والے مقدمات کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکی تو خود اپنی مرضی سے اس لڑکے کے ساتھ تعلق میں رہی ہے جبکہ پیکا لا ڈیٹا سیفٹی کی بات کرتا ہے، مرضی یا زبردستی کے تعلق کو جانچنے کی نہیں۔

Published: undefined

ایف آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق انہوں نے اس ایک سال میں پیکا لا کے سیکشن 20 کے تحت درج 7 ہزار کیسز کو نمٹایا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان میں سے کتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا، کتنے لوگ گرفتار ہوئے اور کتنے کیسز کو بغیر کارروائی کے بند کر دیا گیا، یہ سب بتانا مشکل ہے۔

Published: undefined

مہنگائی کے اس دور میں عورت کا گھر چلانے کے لیے نوکری کرنا وقت کی اشد ضرورت بن چکا ہے لیکن وہی عورت انٹرنیٹ اور موبائل کے اس دور میں ہر لمحہ مردوں کے ہاتھوں بلیک میل کی جا رہی ہے۔ صنفی امتیاز میں پاکستان 142 نمبر پر ہے تو کیا یہ وقت قوانین کو خواتین کے تحفظ کے لیے بہتر بنانے اور ان کی جان و عزت کی حفاظت کے لیے ایسے عوامل کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا نہیں ہے؟ اگر اب نہیں تو پھر کب؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined