سماج

رائے قائم کرنا ایک عام رویہ بن چکا ہے

ججمنٹل ہونا ایک عمومی رویہ بن چکا ہے۔ ہم کچھ بھی سوچے سمجھے بنا کسی کے بارے بھی کوئی بھی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ عموما یہ رائے ٹھیک نہیں ہوتی۔ اس کے عمومی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

رائے قائم کرنا ایک عام رویہ بن چکا ہے
رائے قائم کرنا ایک عام رویہ بن چکا ہے 

’ججمنٹل‘ یہ لفظ اکثر کسی خاص رویے، شخص، یا غلطی کی قسم کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیا آپ بھی ججمنٹل ہیں؟ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آپ دن میں کتنی بار لوگوں، حالات یا واقعات کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں؟ یہ ایک عام عادت ہے جس کو ہم جانے ان جانے پریکٹس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہم کسی سے ملتے ہیں، تو ہم فوری یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کیسا نظر آتا ہے اور ان کے طرز زندگی کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔

Published: undefined

جب ہم سوشل میڈیا پر اسکرول کرتے ہیں، ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کے لباس پسند ہیں یا نہیں، ان کے بالوں کے انداز کو دیکھتے ہیں، ان کی حرکات کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا تاثر ہی آخری ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے جو چیز ہم نے کسی میں پہلی نظر میں نوٹ کی ہو وہ اس کے بالکل مختلف نکلے۔ اس لیے فورا ہی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ مثال کے طور پر، راہ چلتے ہم نے کسی شخص کو پٹتے دیکھا اور پیٹنے والا شخص ہمیں سخت مزاج لگا تو ہماری ہمدردی فوری طور پر پٹنے والے شخص کے ساتھ ہو جاتی ہے اور بنا تحقیق کیے کہ کس غلطی ہے ہم یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ جسے مارا پیٹا جا رہا ہے وہ مظلوم ہے۔

Published: undefined

اس رویہ کو ججمنٹل ہونا کہتے ہیں کہ ہم خود ہی کسی کو جانے پرکھے بنا اچھے یا برے ہونے سرٹیفکیٹ عطا کر دیتے ہیں۔ یہ ایک منفی لفظ ہے، جو کسی ایسے شخص کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اکثر بغیر کسی وجہ کے فیصلے کے لیے جلدی کرتا ہے۔

Published: undefined

کولمبیا کے ڈاکٹر مارکم کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ حقائق کے بنا منفی قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ دنیا کو ذاتی تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہمدردی کسی سے نہیں کرتے۔ برتری کا شکار ہوتے ہیں اور ہر دوسرا انسان ان کو حریف نظر آتا ہے اور اکثر نا خوش ہی رہتے ہیں۔

Published: undefined

جب ہم کسی سے بھی ملتے ہیں یا دیکھتے ہیں تو ہم اس کے بارے پروجیکشن کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق پروجیکشن ایک عام انسان کا نفسیاتی طور پر دفاعی طریقہ کار ہوتا ہے، جو ہمیں نفسیاتی طور پر تکلیف سے بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

انسان ایسا کیوں بن جاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہم سماجی مخلوق ہیں۔ بچے تمام اچھے اور برے رویوں کو جذب کرتے ہیں اور ان کی نقل کرتے۔ اگر آپ کے بڑے جو آپ کے ساتھ گھر میں ہوتے ہیں ان کا رویہ ججمنٹل ہے تو آپ بھی با آسانی ججمنٹل بن سکتے ہیں۔

Published: undefined

احساس کمتری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور سگمنڈ فرائیڈ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق پروجیکشن کے ساتھ احساسات اور عدم تحفظ کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ظاہری چیزوں کی وجہ سےججمنٹل ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ احساس کمتری بڑھ کر احساس محرومی میں بدل جاتا ہے اور اس کا شکار شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ سب لوگ جان بوجھ کر اس کو اس کی خوشیوں سے محروم کرتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، چاہے وہ مذہبی پرورش ہو، پسماندہ بچپن ہو، یا محض ایک مختلف مزاج کا معاملہ، لوگ بعض اوقات ایسی چیزوں پر تنقید کرتے ہیں جنہیں وہ ذاتی طور پر قبول نہیں کر سکتے۔

Published: undefined

ججمنٹل ہونا زندگی گزانے کے لیے کافی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کسی کے بارے میں غلط سوچ بسا اوقات بڑے بڑے نقصانات کروا دیتی ہے۔ اس رویہ کو کم یا ختم کیسے کیا جا سکتا ہے آئیے اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے سوچنے کے انداز کو بہتر بنائیں۔ منفی سوچوں کو خاتمہ کریں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کی تکلیف جاننا چاہتے ہیں تو خود کو اس صورت حال میں کھڑا کر کے سوچو۔ حقیقت کو قریب تر سے جاننا بھی ججمنٹل سوچ کا خاتمہ کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملیں تاکہ لوگوں کے تجربات کو اور ان کی سوچ کو جان سکیں۔ اس سے پہلی نظر کا تاثر ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined