سماج

تقریباً تمام افریقی ممالک یورپ میں ہی اپنی کرنسیاں کیوں چھاپتے ہیں؟

آزادی کی کئی دہائیوں بعد بھی کم از کم چالیس افریقی ممالک کی کرنسیاں برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں چھپتی ہیں۔ امیر افریقی ممالک بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ کیا ایسا کرنا افریقہ کے لیے خطرہ نہیں ہے؟

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس  

گزشتہ جولائی میں گیمبیا کے ایک وفد نے ہمسایہ ملک نائجیریا کے مرکزی بینک کا دورہ کیا اور درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے پاس موجود گیمبیا کی کرنسی دلاسی فراہم کریں تاکہ ملک میں نوٹوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ مسئلہ یہ تھا کہ گیمبیا اپنی ملکی کرنسی خود پرنٹ نہیں کرتا بلکہ اس نے ملکی لیکوئیڈ کرنسی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کو آرڈر کر رکھا تھا اور اس آرڈر میں ابھی تاخیر تھی۔

Published: undefined

اس ملک میں پیدا ہونے والی نوٹوں کی کمی کا یہ معاملہ ملک کی معیشت کے ایک دلچسپ پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ گیمبیا ایک خودمختار ملک ہے لیکن کرنسی کی پیداوار کے حوالے سے اس کا انحصار کسی دوسرے ملک پر ہے۔ کرنسی کسی بھی قوم کی شناخت کا ایک علامتی عنصر ہوتی ہے۔

Published: undefined

تاہم گیمبیا اس معاملے میں تنہا نہیں ہے۔ افریقہ کے 54 ممالک میں سے دو تہائی سے زیادہ ملک اس وقت اپنے نوٹ بیرون ملک چھاپتے ہیں، بنیادی طور پر یورپی اور شمالی امریکی ممالک میں۔

Published: undefined

برطانوی کرنسی پرنٹنگ کمپنی 'ڈی لا رو‘، سویڈن کی 'کرین اے بی‘ اور جرمنی کی 'گیزیکے پلس ڈیورینٹ‘ ایسی ٹاپ نجی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے افریقی ممالک کی قومی کرنسیاں پرنٹ کرنے کی معاہدے کر رکھے ہیں۔

Published: undefined

یہ بات بہت سے لوگوں کو حیران کر سکتی ہے کہ تقریباﹰ تمام افریقی ممالک اپنی کرنسیاں درآمد کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ حقیقت قومی فخر اور قومی سلامتی پر سوالات اٹھاتی ہے۔

Published: undefined

کسی دوسرے ملک میں پرنٹنگ خطرہ ہے؟

کئی افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ممالک اپنی کرنسیاں خود پرنٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بدعنوان افسران کا شکار ہو سکتے ہیں یا پھر ہیکروں کا، جو کرنسی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان ماہرین کی رائے میں بہت سے معاملات میں آؤٹ سورسنگ یا غیر ملکی کمپنیوں سے پیسہ پرنٹ کروانا زیادہ محفوظ ہے۔

Published: undefined

لیکن نوٹ درآمد کرنے کے حوالے سے بھی کئی چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ سن 2018ء میں سویڈن سے بھیجے گئے لائبیرین ڈالر کے کنٹینرز غائب ہو گئے تھے لیکن بعدازاں اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد کی گئی تھی۔ اسی طرح نوٹ ٹرانسفر کرنے کے لیے خصوصی جہاز بک کیے جاتے ہیں اور اس پر بھی کافی زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔

Published: undefined

لیکن اس کے باوجود 'ڈی لا رو‘ جیسی کمپنیاں سینکڑوں برسوں سے موجود ہیں اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے لیے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپتی ہیں۔ ان کے پاس پولیمر جیسی کرنسی کی اختراعات کے لیے ٹولز اور تجربہ ہے۔ مثال کے طور پر اب گھانا اپنے مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) تیار کرنے کے لیے جرمنی کی کمپنی 'گیزیکے پلس ڈیورینٹ‘ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔

Published: undefined

یہ فرمیں اضافی طور پر قومی پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات بھی تیار کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کی سکیورٹی انتہائی زیادہ ہوتی ہے تاکہ ہیکرز وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں۔ علاوہ ازیں ان کے مقامات بھی نامعلوم ہوتے ہیں کہ نوٹ کس جگہ پرنٹ کیے جاتے ہیں۔ واٹر مارکس، تصاویر اور دیگر مشکل نقاشی، جو بینک نوٹوں میں عام طور پر ہوتے ہیں، کا مرحلہ انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔

Published: undefined

اس کے علاوہ جیسے جیسے دنیا نئی کیش لیس ٹیکنالوجیز کی طرف بڑھ رہی ہے، ویسے ہی متعدد ممالک کے لیے پیداواری لاگت اٹھانا بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ نئے بینک نوٹوں کی مانگ میں کمی نے ڈنمارک کو بھی 2014ء میں آؤٹ سورسنگ پر جانے پر مجبور کر دیا تھا اور اب یہ یورپی ملک بھی ایک دوسرے ملک میں نوٹ چھپواتا ہے۔

Published: undefined

لیکن کسی دوسرے ملک میں نوٹ پرنٹ کروانے کے نقصانات بھی ہیں۔ کچھ حکومتیں دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اسے بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی پر پابندیوں کے بعد برطانیہ نے 'ڈی لا رو‘ کو لیبیائی دینار پرنٹ کرنے سے روک دیا تھا۔

Published: undefined

کئی افریقی ممالک اس منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں کہ افریقی ممالک کی کرنسی اسی براعظم میں پرنٹ کی جائے لیکن افریقی ممالک آپس میں ایک دوسرے پر اس حوالے سے کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔ ان ممالک کو بیرون ملک بیٹھی کمپنیوں پر اعتبار زیادہ ہو چکا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined