سماج

بھارت میں پچھلے چھ ماہ میں ڈھائی سو سے زائد نفرت انگیز تقاریر، رپورٹ

ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے، جہاں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

بھارت میں پچھلے چھ ماہ میں ڈھائی سو سے زائد نفرت انگیز تقاریر، رپورٹ
بھارت میں پچھلے چھ ماہ میں ڈھائی سو سے زائد نفرت انگیز تقاریر، رپورٹ 

واشنگٹن میں قائم ہندوتوا واچ نامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف روزانہ اوسطاً ایک سے زیادہ مرتبہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور یہ صورت حال ان ریاستوں میں زیادہ نمایاں رہی جہاں اگلے چند ماہ کے دوران ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔

Published: undefined

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات پر نگاہ رکھنے والی اس تنظیم کے مطابق سن 2023 کی پہلی ششماہی میں مختلف میٹنگوں اور پروگراموں کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے 255 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ حالانکہ اس سلسلے میں سابقہ برسوں کا کوئی تقابلی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

Published: undefined

ہندو واچ نے نفرت انگیز تقریر کے متعلق اقوام متحدہ کی طے کردہ تعریف کو مدنظر رکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ، "ابلاغ کی کوئی بھی ایسی شکل، جس میں مذہب، نسل، قومیت، رنگ، جنس یا دیگر شناختی عوامل کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کے لیے متعصبانہ یا امتیازی زبان استعمال کی جائے۔" رپورٹ کے مطابق نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں سن 2023 اور 2024 میں انتخابات ہونے والے ہیں۔

Published: undefined

'نفرت انگیز تقاریر اب عام بات'

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے واقعات اب عام ہیں اور یہ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں بھارتی پارلیمان میں بھی اس کا افسوس ناک مظاہرہ ہوا۔ حالانکہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن رمیش بدھوڑی نے مسلم رکن پارلیمان کنور دانش علی کے خلاف جس طرح کے "نازیبا الفاظ" استعمال کیے اس کی ایک بڑے حلقے کی جانب سے مذمت بھی کی جا رہی ہے۔

Published: undefined

دانش علی نے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "کیا آرایس ایس کی شاکھاؤں اور نریندر مودی جی کی لیبارٹری میں یہی سکھایا جاتا ہے؟ آپ کا کیڈر جب ایک منتخب رکن پارلیمان کو پارلیمنٹ میں … ایسے توہین آمیز الفاظ کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تو وہ عام مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتا ہوگا؟ یہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔"

Published: undefined

اس سے قبل جون میں بی جے پی کی حکومت والی اتراکھنڈ ریاست میں دیواروں پر ایسے پوسٹر چسپاں ملے تھے جن میں مسلمانوں کو علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کی وارننگ دی گئی تھی۔ 'دیو بھومی رکشا ابھیان' نامی ایک ہندو گروپ نے یہ پوسٹر چسپاں کیے تھے۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیمیں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایتیں کرتی رہی ہیں۔

Published: undefined

مسلمانوں کے خلاف تشدد اور سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کا مطالبہ

ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں دیکھنے میں آئے۔ صرف مہاراشٹر میں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، ایسے 29 واقعات ہوئے۔

Published: undefined

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرت انگیز تقریروں کے دوران سازشی نظریات کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔ مقررین نے ہندووں سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔

Published: undefined

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت سن 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نفرت انگیز تقریروں کے ذریعہ ہندو ووٹرو ں کی صف بندی کرنا چاہتی ہے۔ ہندوتوا واچ کے مطابق اس نے ہندو قوم پرست گروپوں کی آن لائن سرگرمیوں کا سراغ لگایا، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی نفرت انگیز تقاریر کی تصدیق شدہ ویڈیوز دیکھیں اورمیڈیا میں رپورٹ کیے گئے واقعات کی بنیاد پر اپنی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔

Published: undefined

مودی حکومت نے ہندوتوا واچ کی اس رپورٹ پر فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم وہ اقلیتوں کے ساتھ کسی طرح کی تفریق یا بدسلوکی کی خبروں سے انکار کرتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور منافرت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined