سماج

جرمنی: حجاب سے متعلق بحث پُر تشدد لڑائی کا سبب بن گئی

جرمنی کی ایک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہیڈ اسکارف سے متعلق ہونے والا ایک مباحثہ پر تشدد لڑائی میں بدل گیا۔ منتظمین کو اس لڑائی پر قابو پانے کے لیے پولیس کو طلب کرنا پڑا۔

جرمنی: حجاب سے متعلق بحث پُر تشدد لڑائی کا سبب بن گئی
جرمنی: حجاب سے متعلق بحث پُر تشدد لڑائی کا سبب بن گئی 

جرمن شہر فرینکفرٹ میں واقع گوئتھے یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل میں سر ڈھانپنے یا ہیڈ اسکارف کے حوالے سے بحث کا آغاز تو بظاہر پرسکون انداز میں ہوا مگر کچھ وقت کے بعد تند و تیز جملوں کے تبادلے نے صورتحال کو پر تشدد لڑائی میں بدل دیا۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس کو بلانا پڑا۔

Published: undefined

'فرانکفرٹر الگیمائنے سائٹنگ‘ نامی جرمن اخبار کے مطابق یہ واقعہ جمعرات 16 جنوری کو پیش آیا جب گوئتھے یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل میں 'حجاب: لباس، مذہبی علامت یا سیاسی آلہ‘ کے عنوان سے ایک بحث منعقد کرائی گئی۔ اخبار کے مطابق پولیس کی آمد کے بعد ہی صورتحال قابو میں آئی۔ پولیس کی ایک ترجمان نے ایک جرمن اخبار 'بِلڈ‘ کو بتایا کہ حکام نے متعدد افراد کے خلاف دوسروں پر تشدد کے الزام کے تحت کارروائی شروع کی ہے۔

Published: undefined

''اشٹڈیز گیگن ریشٹ ہیٹزے‘‘ یا دائیں بازو کی تحریک کے خلاف طلبہ نامی گروپ کے طلبہ بھی وہاں جمع ہو گئے۔ ان طلبہ نے وہاں پر بینر لہرائے جس کے بعد وہاں بحث و تکرار شروع ہو گئی اور پھر اس گروپ کے طلبہ سے ہال سے چلے جانے کو کہا گیا مگر صورتحال کشیدہ ہو گئی اور باقاعدہ لڑائی کا سبب بن گئی۔

Published: undefined

اس مباحثے کے لیے 'ٹیر دے فیمز‘ یا خواتین کی سرزمین نامی گروپ سے تعلق رکھنے والی نائلہ شیخی بھی اس مباحثے میں مدعو تھیں۔ فرینکفرٹر الگمائینے کے مطابق شیخی کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے اس نکتہ نظر کے اظہار سے نہیں روکا جا سکتا ہے کہ نقاب 'خواتین کی غلامی‘ ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ وہ پوری زندگی اس پر بات کر سکتی ہیں۔

Published: undefined

اشٹڈیز گیگن ریشٹ ہیٹزے کے طلبہ تاہم اس خیال سے متفق نہیں اور ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو جانتے بوجھتے ہی امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined