سماج

ایغورمسلمانوں پر ’شرم ناک مقدمات‘، ڈی ڈبلیو کی تفتیشی رپورٹ

چین میں ایک ملین سے زائد ایغور مسلمانوں کو مختلف حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، جہاں ان پر مبینہ الزامات کے تحت ‘شرم ناک انداز‘ سے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کی خصوصی رپورٹ۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا 

چینی حکومت ملکی صوبے سینکیانگ میں 'تعلیم نو کے مراکز‘ کے نام سے مختلف حراستی مراکز چلا رہی ہے، جن میں بند افراد کے لیے ہر نیا دن ایک 'ڈراؤنے خواب‘ کی طرح ہوتا ہے۔ ان مراکز میں بند افراد کئی کئی گھنٹے لینگوئج کلاسز میں نہایت چھوٹے چھوٹے اسٹولز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں گھنٹوں صدر شی جن پنگ کی تعریف پر مبنی پروپیگنڈا مواد دیکھایا جاتا ہے۔ ایسے میں ان سے ذرا سی بھی لغزش یا غلطی ہو جائے، تو انہیں سخت سزا دی جاتی ہے۔

Published: undefined

اپنی مرضی کا جرم

Published: undefined

ان مراکز میں رہنے والے سابقہ قیدیوں کے مطابق مہینوں طویل اس قید میں ایک دن تاہم مختلف تھا۔ اس روز ان کے ہاتھ میں جرائم کی ایک فہرست دی گئی، جس میں سے انہیں چننا تھا کہ ان کا جرم کیا ہے۔ ان مراکز میں زیادہ تر وہ قیدی بند ہیں، جنہیں علم ہی نہیں کہ ان کا جرم کیا ہے۔

Published: undefined

اس فہرست میں سے جرم چننے کے بعد ایک 'شرم ناک مقدمہ‘ چلایا جاتا ہے۔ اس مقدمے میں قیدی کو کسی بھی طرح کی کوئی قانونی نمائندگی نہیں دی جاتی اور بغیر شواہد یا ثبوتوں کے ان مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو نے ان حراستی مراکز سے باہر آنے والے چار سابقہ قیدیوں سے بات چیت کی۔ ان میں دو مرد اور دو خواتین تھیں۔ ان قیدیوں کا تعلق مسلم اکثریتی صوبے سینکیانگ سے ہے۔ یہ صوبہ ایک طویل عرصے سے مسلمانوں کے شدید ثقافتی، سماجی اور اقتصادی استحصال کا منظر پیش کرتا ہے، تاہم حالیہ کچھ برسوں میں یہاں لاکھوں افراد کو 'تعلیم نو کے مراکز‘ میں لے جا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کا مقصد انسداد دہشت گردی ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرنے والے ان چاروں قیدیوں نے سن 2017 تا 2018 کئی ماہ ایسے ہی مراکز میں گزارے۔ ان تمام افراد سے کئی ہفتوں کے دورانیے میں یہ انٹرویوز انفرادی طور پر کیے گئے۔

Published: undefined

جرم خود ہی چن لیں

Published: undefined

ان چاروں سابقہ قیدیوں نے بتایا کہ انہیں ایک فہرست دی گئی جس میں 70 جرائم درج تھے اور ان سے کہا گیا کہ وہ ان میں سے کوئی ایک یا کئی جرائم چن لیں۔ ان میں کچھ جرائم سادے سے تھے جن میں سفر یا بیرون ملک افراد سے رابطہ تھا۔ تاہم بعض میں مذہبی عبادات مثلاﹰ نماز پڑھنا یا اسکارف پہننا تک بھی جرائم کی اس فہرست میں شامل تھے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو ان قیدیوں کی کہانیوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکتا تاہم ان تمام افراد کی کہانی کے اہم موڑ ایک دوسرے سے بالکل ملتے جلتے اور ایک دوسری کی کہانی کو تقویت دیتے ہیں۔

Published: undefined

ان چاروں افراد کے پاس قازقستان کا رہائشی پرمٹ بھی تھا اور ان کے اہل خانہ بھی چین کے ہم سایہ ملک قازقستان میں آباد تھے، اس لیے ممکنہ طور پر عوامی سطح پر اہل خانہ کے دباؤ اور درپردہ قازقستان کی حکومت کے سفارتی اقدامات کے نتیجے میں ان افراد کو رہا کیا تھا۔ واضح رہے کہ قازقستان میں بھی ایغور مسلم برداری مقیم ہے۔ تاہم ایسے افراد جن کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت یا رابطہ نہیں، ان کے لیے اس چینی استحصال سے نکلنا ناممکن ہے جب کہ ان کی مسلسل نگرانی بھی کی جاتی ہے۔

Published: undefined

ان قیدیوں میں سے ایک کو حراستی مرکز کے اندر ایک ہسپتال کے ونگ میں رکھا گیا تھا جہاں اسے ٹی بی ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ چینی زبان اچھی طرح نہیں جانتا تھا اور جب اسے 'جرائم‘ کی یہ فہرست دی گئی، تو ساتھی قیدیوں نے اسے ایغور زبان میں ترجمہ کر کے بتایا۔ ایک دوسرے قیدی کو 'جرائم کی فہرست والا صفحہ‘ کلاس روم میں ایک استاد کی جانب سے دیا گیا۔ اس نے بتایا کہ کلاس روم میں مسلح محافظ الیکٹرک شاک دینے والی اسٹن گن تانے کھڑے ہوتے تھے۔ رہائی پانے والی خاتون نے بتایا کہ وہ مارچ 2018 میں ایک حراستی مرکز میں قید تھی۔ ''وہ ہمیں دھمکیاں دیتے تھے۔ اگر تم نے کوئی جرم نہ چنا، تو اس کا مطلب ہے تم اپنے جرم کا اعتراف نہیں کر رہیں۔ اگر تم جرم کا اعتراف نہیں کرو گی، تو ساری عمر یہیں رہو گی۔ اس لیے میں نے ایک جرم چن لیا۔‘‘

Published: undefined

بہادری

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والے قیدیوں نے بتایا کہ انہوں نے جرم چن کر اس فہرست والے صفحے پر دباؤ میں دستخط کیے۔ تاہم ایک قیدی نے بتایا کہ وہاں ایک قیدی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ''اگلے چند روز میں کئی اعلیٰ عہدیدار وہاں آئے اور اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس پر دستخط کرے۔ مگر وہ نہ مانا۔ پھر اسے وہاں سے رہا کر کے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اس کی سخت ترین نگرانی کی گئی۔‘‘

Published: undefined

اس شخص کے پاس قازقستان کا رہائشی پرمٹ تھا اور شاید اسی وجہ سے وہ اس دباؤ کے خلاف مزاحمت میں کامیاب رہا۔ ان قیدیوں کے مطابق 75 ایسے اقدامات ہیں جو چینی حکومت کی نظر میں 'شدید نوعیت کے مذہبی اقدام‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں 'جہاد کی ترویج‘ یا 'شریعہ قوانین کی حمایت‘ اور 'کسی خاتون کو اسکارف پہننے پر مجبور کرنا‘ جیسے اقدامات کے علاوہ اچانک شراب نوشی ترک کرنا بھی شامل ہے۔ سن 2014 میں چینی حکومت نے یہ فہرست سینکیانگ میں تقسیم کی تھی اور مقامی افراد سے کہا تھا کہ اس سلسلے میں 'مشکوک افراد‘ کی بابت حکام کو آگاہ کریں۔

Published: undefined

چینی حکومت کا ہدف مسلم ثقافت

Published: undefined

ایک قیدی کے مطابق سن 2014 میں صوبے بھر میں تقسیم کی گئی فہرست حراستی مرکز میں دی گئی فہرست جیسی ہی تھی، تاہم اس فہرست میں 'پاسپورٹ کا حامل‘ ہونا اور 'غیرملکی سفر‘ بھی شامل کیے گئے تھے۔ سینکیانگ کے ہوتان نامی علاقے میں 26 'غیرقانونی مذہبی سرگرمیاں‘ نامی فہرست جاری کی گئی تھی، جس میں نماز کی امامت کرنا، لوگوں سے نماز پڑھنے کا کہنا اور کسی خاتون کو سرڈھانپنے پر مجبور کرنا جیسے اقدامات شامل تھے۔

Published: undefined

ان غیرقانونی اقدامات کی فہرست یہ بتاتی ہے کہ چین کا ہدف مسلمانوں کا مذہب اور ثقافتی رسومات ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان ایک طویل عرصے سے بیجنگ حکومت پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ ایغوروں کی ثقافتی اور مذہبی پہچان مٹانا چاہتی ہے۔ ہلمون انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ماہر ٹیموتھی گروز کے مطابق چین میں مذہبی سرگرمیوں کو 'امنِ عامہ کے لیے خطرے‘ کا نام دے کر غیرقانونی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ' حکام کسی بھی مذہبی سرگرمی کی جو تشریح کرنا چاہیں کر لیتے ہیں۔ پورا قانونی نظام بے وقوفی ہے اور یہ سراسر ناانصافی پر مبنی ہے۔‘‘

ناؤمی کونراڈ، جولیا بائر، چیری شین، ع ت، ا ا

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined