بچوں کی مدد کرنے والی اور بین الاقوامی سطح پر فعال تنظیم 'سیو دا چلڈرن‘ کی پاکستانی شاخ کے ڈائریکٹر خرم گوندل نے منگل 18 اکتوبر کے روز اسلام آباد میں جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ نہ صرف اب تک کئی ملین پاکستانی بچے اسکول نہیں جا پا رہے بلکہ ان سے متعلق یہ خدشات بھی اپنی جگہ ہیں کہ ان کی بڑی اکثریت شاید کبھی اسکول واپس جا ہی نہ سکے۔
Published: undefined
خرم گوندل نے بتایا، ''ہم صحت کے شعبے میں بھی ایک بحران دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب زدگان کے لیے سلامتی کا بحران بھی ہے اور اب پاکستان میں تعلیمی شعبے میں ایک نیا بحران سامنے آتا جا رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں مون سون کی انتہائی شدید بارشوں کے بعد حالیہ ہفتوں میں جو تباہ کن سیلاب آئے، ان کے نتیجے میں ملک کا تقریباﹰ ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ ان سیلاب اور ان سے جڑے واقعات اور حادثات میں مجموعی طور پر 1719 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 33 ملین سے زیادہ شہری متاثر ہوئے تھے۔
Published: undefined
سیلاب زدگان کی بحالی کا کام کرنے والے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیلاب زدہ علاقوں میں پھیلتی مختلف بیماریاں اپنی جگہ پریشان کن تھیں اور ابھی تک ہیں جبکہ کئی ملین بچوں کا اسکول نہ جانا بھی اب بحرانی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
Published: undefined
سیو دا چلڈرن کی پاکستانی شاخ کے مطابق حالیہ سیلاب سے ملک کے مختلف حصوں میں مجموعی طور پر 23 ہزار 900 کے قریب اسکول پوری طرح تباہ ہو گئے یا انہیں جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ پانچ ہزار سے زائد اسکول ابھی تک سیلاب زدگان کے لیے عارضی رہائشی کیمپوں کے طور پر بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ان میں سے نصف اسکول صوبہ سندھ میں واقع ہیں۔
Published: undefined
صوبہ سندھ میں بحالی اور ریلیف سے متعلق منصوبوں کے لیے وزیر اعلیٰ کے مشیر رسول بخش چانڈیو نے بتایا کہ صرف اس ایک پاکستانی صوبے میں سیلاب سے 12 ہزار کے قریب اسکول متاثر ہوئے۔ ان اسکولوں میں تقریباﹰ دو ملین بچے زیر تعلیم تھے، جن کی پڑھائی کا سلسلہ تاحال معطل ہے۔
Published: undefined
خرم گوندل کے مطابق، ''وہ بچے جو اسکول نہیں جا پا رہے، ان کے بارے میں یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر وہ محنت مزدوری کرنا شروع ہو گئے، تو ان کی تعلیم کا سلسلہ کبھی بحال نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ سیلاب کے باعث جو بچیاں اسکول نہیں جا رہیں، ان سے متعلق یہ خدشات بھی زیادہ ہو گئے ہیں کہ ان کے سیلاب زدہ اور اپنا تقریباﹰ سب کچھ کھو چکے والدین ان کی بچپن ہی میں شادیاں کرنے لگ جائیں گے۔‘‘
Published: undefined
سیوا دا چلڈرن کی طرف سے پاکستان میں حکومتی اداروں کے ساتھ اشتراک عمل سے اس وقت 90 ایسے تعلیمی مراکز قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں متاثرہ بچوں کی پڑھائی میں مدد کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق بچوں کی تعلیم کے لحاظ سے پاکستان کا ایک منفی ریکارڈ بھی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان عالمی درجہ بندی میں دوسرا ایسا ملک ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
Published: undefined
یونیسیف کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 برس تک کی عمر کے تقریباﹰ 22.8 ملین بچے ایسے ہیں، جو حصول تعلیم کے لیے اسکول جاتے ہی نہیں۔ یہ تعداد اسی عمر کے پاکستانی باشندوں کی مجموعی آبادی کا 44 فیصد بنتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined