سماج

برکس میں نئے اراکین کی شمولیت پر اختلافات

چین ابھرتی ہوئی معیشتوں کےبلاک برکس کو وسعت دینا چاہتا ہے لیکن بھارت کو اس پر تحفظات ہیں کیونکہ اس کے خیال میں بیجنگ کا مقصد اپنا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔

برکس میں نئے اراکین کی شمولیت پر اختلافات
برکس میں نئے اراکین کی شمولیت پر اختلافات 

جوہانسبرگ میں جاری برکس کانفرنس میں چین نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اس بلاک میں توسیع کے منصوبوں پر زور دیا۔ یہ بلاک عالمی سطح پر اپنی سیاسی اور اقتصادی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

Published: undefined

برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس ممالک عالمی معیشت کی ایک چوتھائی کی نمائندگی کرتے ہیں اور بہت سے ممالک بھی اس ابھرتے ہوئے گروپ میں شمولیت کے خواہش مند ہیں۔ ان دنوں جوہانس برگ میں برکس کے سربراہان کا تین روزہ اجلاس جاری ہے۔

Published: undefined

برکس کے افتتاحی اجلاس میں چین کے وزیر تجارت وانگ وینتاو کے ذریعہ پڑھی گئی چینی صدر کی تقریر میں شی جن پنگ کا کہنا تھا، "خواہ جو بھی مزاحمت ہو لیکن برکس، خیر سگالی کے لیے ایک مثبت اور مستحکم قوت کے طورپر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہم ایک مضبوط برکس اسٹریٹیجک شراکت داری قائم کریں گے... رکنیت کی توسیع کو فعال طور پر آگے بڑھائیں گے اور بین الاقوامی نظم کو مزید منصفانہ اور مساوی بنانے میں مدد کریں گے۔"

Published: undefined

شی جن پنگ نے کہا کہ جوہانسبرگ میں ہونے والی بات چیت کا مقصد "ممالک کے فریق بننے یا بلاک میں تصادم پیدا کرنا نہیں بلکہ امن اور ترقی کے معمار کے طورپر اسے وسعت دینا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "تعصب چین کے ڈی این اے میں نہیں ہے۔" جنوبی افریقہ کے صدر سائرل رامفوسا کی میزبانی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، برازیل کے صدر لوئز اناسیو لولا ڈی سلوا اور چینی صدر ذاتی طورپر اس میٹنگ میں شریک ہیں جب کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن آن لائن شرکت کررہے ہیں۔ چین برکس کی سب سے طاقت ور معیشت ہے اور صدر شی جن پنگ کا جنوبی افریقہ کا یہ سرکاری دورہ اس سال ان کا دوسرا بین الاقوامی دورہ ہے۔

Published: undefined

درجنوں ممالک برکس میں شامل ہونے کے خواہش مند

برکس دنیا کی 40 فیصد آبادی او ردنیا کی ایک چوتھائی دولت کی نمائندگی کرتا ہے اور بہت سے ممالک اپنے قومی مفادات کے لیے اس ابھرتے ہوئے بلاک میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔ جنوبی افریقہ کے حکام کا کہنا ہے کہ 40 سے زائد ملکوں نے برکس میں شامل ہونے میں کسی نہ کسی سطح پر دلچسپی ظاہر کی ہے۔

Published: undefined

برکس کے اراکین کی طرح ہی یہ ممالک مختلف سیاسی نظام، غیر مساوی اقتصادی طاقت اور متضاد سفارتی موقف کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ثقافتی اور جغرافیائی طورپر بھی کافی متنوع ہیں۔ مثال کے طورپر ارجنٹائن، سعودی عرب، قازکستان اور ویت نام۔ بہت سے ممالک روایتی طور پر ناوابستہ ہیں، مثلاً انڈونیشیا اور ایتھوپیا اور کچھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کھلے مخالف ہیں جیسے کہ ایران اور وینزویلا۔ حکام کے مطابق تقریباً50 ممالک کے سربراہان جوہانس برگ کانفرنس میں حصہ لے رہے ہیں۔

Published: undefined

بھارت کے تحفظات

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین، جو کہ برکس کا اقتصادی طورپر سب سے طاقت ور ملک ہے، اس گروپ کو دنیا کے امیر ترین جمہوریتوں کے گروپ جی۔7 کا متبادل بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے جولائی میں برکس کو "ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کا سب سے اہم پلیٹ فارم قرار دیا تھا اور کہا کہ چین اس بلاک کو وسعت اور مضبوط کرنے کے لیے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔"

Published: undefined

روس اور جنوبی افریقہ بھی برکس میں نئے اراکین کی شمولیت کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارت تاہم اسے تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نئی دہلی کا خیال ہے کہ بیجنگ برکس میں توسیع کے ذریعے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔

Published: undefined

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے متضاد موقف کی وجہ سے یہ تعین کرنا فی الحال مشکل ہے کہ آنے والے برسوں میں کسی ملک کو برکس میں داخلہ دیا جائے گا یا نہیں۔ دریں اثنا امریکی قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان کا کہنا ہے کہ امریکہ برکس کو اپنے جغرافیائی اور سیاسی حریف کے طورپر نہیں دیکھتا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined