سماج

ایران کی ’’اخلاقی پولیس‘‘ کا پس منظر

ایران میں ایک کُرد نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت اس ملک کی نام نہاد ’’اخلاقی پولیس ‘‘ کے پس منظر کے بارے میں ہر کسی کے تجسس میں اضافے کا سبب بنی۔ اب اس کے بارے میں جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

ایران کی ’’اخلاقی پولیس‘‘  کا پس منظر
ایران کی ’’اخلاقی پولیس‘‘ کا پس منظر 

مبنیہ طور پر تہران حکومت نے مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے اور روز بروز زور پکڑنے والے عوامی مظاہروں کے بعد اخلاقی پولیس کو تحلیل کر دیا ہے۔

Published: undefined

رواں سال ستمبر کے وسط میں ایرانکی نام نہاد اخلاقی پولس نے 22 سالہ مہسا امینی کو تہران میں مبینہ طور پر حجاب درست طریقے سے نہ اوڑھنے کے الزام میں گرفتارکیا تھا۔ اس کے بعد وہ اسے پولیس اسٹیشن لے گئے، جہاں وہ کوما میں چلی گئی۔ تین دن بعد 16 ستمبر کوامینی ہسپتال میں دم توڑ گئیں۔ امینی کی موت نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں حکومت مخالف ریلیاں نکلیں جو تقریباً دو ماہ سے زیادہ عرصے سے ملک بھر کے درجنوں شہروں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔

Published: undefined

غیر معمولی اعلان

ایران کی اخلاقی پولیس یونٹ کے خاتمے کا اعلان اُس وقت سامنے آیا جب ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے سنیچر کی شب دیر گئے ایک مذہبی کانفرنس کے شرکا اور مقامی رپورٹرز کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا،'' اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں اور اسے ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘

Published: undefined

اخلاقی پولیس کیا کرتی ہے؟

ایران کی اخلاقی پولیس کو '' گشتی ارشاد‘‘ یا '' رہنمائی گشتی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس پولیس یونٹ کا قیام ایران کے سخت گیر موقف رکھنے والے سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں عمل میں آیا تھا۔ سن 1983 میں ایران میں حجاب پہننا لازمی ہو گیا تھا جبکہ 2006 ء سے پولیس یونٹ نے سڑکوں پر گشت کرکے خواتین کے لباس کوڈ پر نظر رکھنا شروع کردیا کیونکہ اسے پبلک مقامات پر 'اسلامی لباس کوڈ‘ کے قوانین کو نافذ کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔

Published: undefined

ایرانی قانون کے مطابق بلوغت کی عمر سے اوپر کی تمام خواتین کو عوامی مقامات پر سر ڈھانپنے اور ڈھیلے کپڑے پہننے چاہییں حالانکہ ا س بارے میں صحیح عمر کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ اسکول میں لڑکیوں کو عام طور پر سات سال کی عمر سے حجاب پہننا پڑتا ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں دیگر عوامی مقامات پر بھی لازمی طور پر حجاب پہننا چاہیے۔

Published: undefined

ایران کے سماجی ضوابط کا ایک بڑا حصہ اسلامی شرعی قانون کی اس ریاست کی تشریح پر مبنی ہے، جس میں مرد اور عورت دونوں کو ایسے لباس پہننے کو کہا گیا ہے جو ستر پوشی کرے اور جسم کے مخصوص حصوں کو نمایاں نہ کرے۔ تاہم عملی طور پر ماضی میں ''اخلاقی پولیس‘‘ بنیادی طور پر خواتین کو شرعی لباس کا پابند بنا کر ایک طر ح سے انہیں نشانہ بناتی رہی ہے۔

Published: undefined

اس بارے میں کوئی واضح رہنما اصول کی حدیں یا تفصیلات موجود نہیں ہیں کہ کس قسم کے لباس نامناسب تصور کیے جائیں گے۔ اس طرح شرعی لباس کے تصور کے لیے ذاتی تشریح کی بہت زیادہ گنجائش چھوڑ دی گئی اور اس کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ''اخلاقیات‘‘ نافذ کرنے والوں نے من مانی کرتے ہوئے خواتین کو اپنی رجعت پسندی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اخلاقی پولیس جسے چاہتی حراست میں لے لیتی۔ اخلاقی پولیس خاص طور سے خواتین کے لیے ڈریس کوڈ کا سختی سےنفاز کرانے لگی۔ اس طرح یہ پولیس حجاب کی خلاف ورزیوں پر کریک ڈاؤن کرنے کےساتھ ساتھ اسکولوں، قومی میڈیا اور عوامی تقریبات میں اسلامی لباس کوڈ کے اپنے ورژن یا تصور کو فروغ دیتی۔

Published: undefined

تاہم بہت سی ایرانی خواتین انتہائی قدامت پسند لباس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے طریقے تلاش کرلیتی ہیں۔ وہ ایسا چست لباس اور رنگین ہیڈ اسکارف پہن کر کرتی ہیں۔ اکثر خواتین کے بال بھی نظر آ رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس بارے میں کوئی سخت اور واضح اصول نہیں ہیں کہ کتنے بالوں کو ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ 2018 ء میں ایرانی پارلیمان نے ایک سروے شائع کیا جس سے پتہ چلا کہ 60 تا 70 فیصد ایرانی خواتین ‘‘ اسلامی لباس کے سخت قوانین کی پیروی نہیں کرتی ہیں۔

Published: undefined

''اخلاقی پولیس‘‘ کا لباس کیسا ؟

ماضی میں اخلاقی پولیس کے دستے میں شامل مرد سبز وردی پہنتے تھے اور خواتین کالی چادروں میں لپٹی نظر آتی تھیں اس طرح ان کا سر اور جسم کا اوپری حصہ مکمل طور پرڈھکا ہوتا تھا۔ اخلاقی پولیس کی طرف سے حراست میں لیے گئے افراد کو نوٹس دیا جاتا ہے یابعض صورتوں میں انہیں نام نہاد تعلیمی اور مشورے کے مراکز یا پولیس اسٹیشن لے جایا جاتا ہے، جہاں ان سے حجاب اور اسلامی اقدار پر لازمی لیکچر میں شرکت کروائی جاتی ہے۔ پھر انہیں اپنی رہائی کے لیے کسی کو ''مناسب کپڑے‘‘ لے کر آنے کے لیے کہنا پڑتا ہے۔

Published: undefined

ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی کی قدامت پسند انتظامیہ کے ماتحت اخلاقی پولیس نے بڑے شہروں میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا۔ اس کے جواب میں ہزاروں خواتین بغیر اسکارف کے سڑکوں پر نکلیں، کچھ نے دوسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی آن لائن ویڈیوز بھی شیئر کیں۔

Published: undefined

مذہبی خواتین بھی بول پڑیں

ایک غیر معمولی اقدام کے تحت سینکڑوں مذہبی خواتین نے لازمی حجاب پہننے کے خلاف آن لائن آواز اٹھانا شروع کر دی۔ یہاں تک کہ اراکین پارلیمان سمیت کچھ قدامت پسند شخصیات نے یہاں تک کہا کہ سختی نے حجاب اور مذہب کے بارے میں عوامی رویوں پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایرانی قوانین اور پولیس فورس پر تنقید کرنا شروع کر دی۔

Published: undefined

انسانی حقوق خاص طور پر حقوق نسوان کے لیے سرگرم کارکنان کئی دہائیوں سے لازمی حجاب پہننے کے خلاف لڑ رہے ہیں، جن میں سے کئی اس وقت جیل میں ہیں۔

Published: undefined

اوسلو میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم یا این جی او '' ایران ہیومن رائٹس‘‘ نے منگل کو ایک بیان میں کہا،'' کئی ہفتوں سے ملک بھر میں جاری مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 448 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ نامور ایرانی اداکاروں اور فٹبالرز سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اداکارہ ہنگامہ غازیانی نے انسٹاگرام پر اپنی ایک ویڈیو شائع کی جس میں انہوں نے اپنا ہیڈ اسکارف ترک کر دیا۔ مقامی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اس اداکارہ کو حراست میں کے کر بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

Published: undefined

اخلاقی پولیس فورس ختم کرنے کے فیصلے اور اس پر عمل درآمد کے طریقے نیز خواتین کے سر پر اسکارف پہننے کی ضرورت کے بارے میں تاحال تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined