Science & Technology

روشنی کے ذریعہ ڈیٹا کی ترسیل: ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم پیش و رفت

نئی اور سستی ٹیکنالوجی ’لائی فائی‘ کے تحت مخصوص ایل ای ڈی بلبوں کے ذریعے انتہائی کم خرچ پر انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

انٹر نیٹ کے ابتدائی دور میں ڈیٹا کی ترسیل کے لیے تانبے کے تار کا استعمال کیا جاتا تھا۔ صارفین تک یہ سروس عام ٹیلی فون کے تاروں سے ڈائل اَپ کنکشن کے ذریعے پہنچتی تھی۔ اگرچہ یہ اس زمانے میں بہت بڑی سہولت سمجھی جاتی تھی لیکن اگر اس کا موجودہ دور کے کمیونیکیشن کے ذرائع سے موازنہ کیا جائے تو شاید حیرت ہوگی کہ صارفین 64 کلوبائٹ کنکشن پر کس طرح کام کرتے ہوں گے۔ پھر تاروں کے ذریعے ہونے والے ڈیٹا کی ترسیل میں رکاوٹیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ اسی لیے ٹیکنالوجی کے ماہرین ایک طرف تو ڈیٹا کی ترسیل کے لیے نئی کاپر کی متبادل قسم کی تاروں کا استعمال ممکن بنانے کی کوششوں میں لگ گئے تو دوسری طرف یہ کوششیں بھی کی جانے لگیں کہ عام صارف بغیر کسی کیبل کے انٹرنیٹ کا استعمال کرسکے۔ یعنی وائر لیس کمیونیکیشن۔ انہی کوششوں کے دوران انٹرنیٹ کے لیے فائبر آپٹکس کیبلز کا استعمال ممکن ہوا۔ اس کے بعد نئے تیز رفتار انٹر نیٹ کنکشن کی سہولت ملنے لگی، جسے براڈ بینڈ کا نام دیا گیا۔

Published: undefined

عام طور سے براڈ بینڈ کی کم سے کم رفتار دو ایم بی پی ایس (2 Mbps) ہوتی ہے۔ دوسری طرف ماہرین کی وائرلیس کمیونیکیشن کی کوششیں بھی رنگ لانا شروع ہوئیں اور 1985 میں ایک نئی ٹیکنالوجی ’’IEEE 802.11‘‘ متعارف ہوئی۔ جسے 1992 میں ’’وائی فائی‘‘ ( Fi Wi) کا نام دیا گیا۔ 1996 میں اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے اداروں میں ’وائرلیس لوکل ایریا نیٹ ورک (WLAN) قائم ہونا شروع ہوگئے۔ 1999میں وائی فائی الائنس ( Alliance Wi FI ) قائم ہوا اور عام صارفین میں یہ ٹیکنالوجی 2000 کے بعد سے مقبول ہونا شروع ہوگئی۔

ابتدائی وائی فائی کنکشن صرف 60 میٹر کی رینج تک ہی محدود تھا۔ تاہم اب اس کے ایک ہاٹ اسپاٹ کی رینج کلومیٹرز تک پھیلی ہوئی ہے۔ جب کہ دنیا بھر میں لاتعداد ہاٹ اسپاٹ موجود ہیں۔ جن سے عام صارفین منسلک رہتے ہیں۔ وائر لیس کمیونیکیشن کے میدان میں 1994 کے دوران ایرکسَن کمپنی نے ایک نئی وائر لیس ٹیکنالوجی ’’بلو ٹوتھ‘‘ (Blutooth) کے نام سے متعارف کرائی۔ یہ ٹیکنالوجی آج بھی استعمال میں ہے لیکن اس کا دائرہ کار کم ہونے کی وجہ سے اسے محدود پیمانے پر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج کل اس کا سب سے زیادہ استعمال وائر لیس کمپیوٹر کی بورڈز، ماؤس، ایک موبائل فون سے دوسرے میں ڈیٹا منتقلی کے لیے ہورہا ہے۔

1990 کے بعد ٹیلی کمیونیکشن کی میدان میں اس وقت انقلاب آگیا جب سیلیولر فونز کا استعمال عام ہونا شروع ہوا۔ ابتدائی دور کے موبائل فونز ’’ایڈوانس موبائل فونز سسٹم‘‘ (SystemPhone Mobile Advanced ) یعنی ’’AMPS‘‘ کے تحت کام کرتے تھے۔ جس سے صرف ٹیلی فون کالز ہی کی جاسکتی تھیں۔1991 میں ’’جی ایس ایم‘‘ (for Mobile System Global) کے متعارف ہونے کے بعد موبائل فونز سے کالز کے علاوہ ڈیٹا کی دیگر طریقوں سے ترسیل بھی ممکن ہوگئی۔ 2001 میں موبائل فونز سے انٹرنیٹ کا استعمال کرنے کے لیے ’’جنرل پیکٹ ریڈیو سروس‘‘ (GPRS) متعارف کرائی گئی۔ جو صرف جی ایس ایم فونز پر ہی کام کرتی تھی۔ اگرچہ وائرلیس کمیونیکیشن کے میدان میں یہ بڑی کامیابی تھی لیکن ماہرین اس سے بہتر کی تلاش میں آج بھی مصروف ہیں۔

آج کل انٹر نیٹ سروس دو طریقوں سے عام استعمال ہورہی ہے۔ ایک میں تو گھروں تک فائبر آپٹکس یا کاپر کے تار کے ذریعے ’’ڈی ایس ایل براڈ بینڈ‘‘ (Line Subscriber Digital) کنکشن پہنچایا جاتا ہے۔ جسے وائی فائی ’’اے ڈی ایس ایل‘‘ (Line Subscriber Digital Asymmetric) موڈیم سے منسلک کردیا جاتا ہے اور پورا گھر ’’ہاٹ اسپاٹ‘‘ بن جاتا ہے۔ دوسرے طریقے میں سروس فراہم کرنے والے صارف کو ’’وائی فائی یو ایس بی ڈونگل‘‘ فراہم کرتے ہیں۔جنہیں کسی بھی لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کے یو ایس بی پورٹ میں لگا کر وائرلیس انٹرنیٹ کنیکشن استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Published: undefined

یہاں یہ بتاتے چلیں کہ ان دونوں طریقوں میں وائی فائی ٹیکنالوجی ہی استعمال ہوتی ہے۔ جس میں ڈیٹا ترسیل کی رفتار ایک میگا بائٹس فی سیکنڈ سے لے کر 9 ایم بی پی ایس تک ہی ممکن ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کئی برسوں سے موجودہ دور کے وائی فائی کنیکشن سے زیادہ تیز رفتار ذریعے کی تلاش میں ہیں۔ اس سلسلے میں کئی تجربات کئی گئے ہیں۔حال ہی میں برطانوی ماہرین نے روشنی کی مدد سے دس گیگا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کرنے کا کام یاب تجربہ کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر بغیر تاروں کے معلومات منتقل کرنے والی یہ ٹیکنالوجی ’’لائی فائی‘‘ (LiFi) کے نام سے متعارف ہوئی ہے۔ ماہرین نے مائیکرو ایل ای ڈی بلب کی مدد سے روشنی کے ہر بنیادی رنگ کے ذریعے 3.5 گیگا بِٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا منتقل کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سفید روشنی کی ایک ہی شعاع سے دس گیگا بِٹ فی سیکنڈ تک ڈیٹا منتقل کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لائی فائی سستی ٹیکنالوجی ہے۔ جس میں مخصوص ایل ای ڈی بلبوں کے ذریعے انتہائی کم خرچ پر انتہائی تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے گا۔ ’’الٹرا پیرلل وزِبل لائٹ کمیونیکیشنزپروجیکٹ‘‘ (light parallel Ultra visible Project communications) یونیورسٹی آف ایڈنبرا سینٹ اینڈروز یونیورسٹی، اسٹارتھکلائڈ یونیورسٹی، آکسفورڈ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کی مشترکہ کوشش ہے۔ جس کے اخراجات انجینئرنگ اینڈ فیزیکل سائنسز ریسرچ کونسل اٹھا رہی ہے۔

Published: undefined

اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے پروفیسر ہیرلڈ ہاس کا کہنا ہے کہ جیسے ایک شاور میں پانی، دھاروں میں علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہم روشنی کو بھی دھاروں میں علیحدہ کر سکتے ہیں۔

او ایم ڈی ایف (Orthogonal multiplexing division frequency) نامی تکنیک کے ذریعے محققین یہ بلب ایک سیکنڈ میں لاکھوں مرتبہ آن آف کرسکتے ہیں۔ اور یہ عمل ڈیجیٹل معلومات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔کمپیوٹروں میں استعمال ہونے والے بائنری نظام میں یہ سگنلز صفر اور ایک کے مترادف ہیں۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسی برس کے آغاز میں ایک جرمن ادارے نے ایک گیگا بِٹ فی سیکنڈ تک معلومات منتقل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسی ماہ چینی سائنس دانوں نے مائیکرو چپ والے ایسے ایل ای ڈی بلب تیار کیے تھے جو 150 میگا بِٹ فی سیکنڈ تک ڈیٹا منتقل کر سکتے ہیں اور ایک بلب چار کمپیوٹروں کو انٹرنیٹ کنکشن فراہم کر سکتا ہے۔2011 میں پروفیسر ہاس نے ایک ایل ای ڈی بلب کی مدد سے ایک ہائی ڈیفنیشن ویڈیو ایک کمپیوٹر تک پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔

انہوں نے ’’لائٹ فیڈیلٹی‘‘ یا لائی فائی (Fi Li) کے الفاظ استعمال کیے اور انہوں نے اسی ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے پیور وی ایل سی (VLC) نامی ایک کمپنی بھی بنائی۔لائی فائی موجودہ ریڈیو وائی فائی نظام سے مالی اور تونائی، دونوں لحاظ سے کم خرچ ہوگی۔ نظر آنے والی روشنی الیکٹرومگنیٹک شعاعوں کا ایک حصّہ اور ریڈیو کی رینج سے دس ہزار گنا وسیع تر ہے۔ روشنی کی مدد سے ڈیٹا منتقل کرنے کا ایک اور فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ایل ای ڈی ٹرانسمیٹرز کی مدد سے عمارتوں میں مستقل انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکتا ہے۔روایتی وائی ائی راؤٹرز میں ایک مسئلہ یہ پایا جاتا ہے کہ فاصلہ کے ساتھ ساتھ ان کا سگنل کمزور ہوتا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی فراہمی کا تسلسل متاثر ہوتا ہے۔ اس مسئلے کو لائی فائی کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر ہاس کا کہنا ہے کہ روشنی کی دیواروں میں سے نہ گزرنے کے باعث وی ایل سی ٹیکنالوجی ان کے نیٹ ورکس کو زیادہ محفوظ بنا دے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined