سیاسی

قانون کی یہ لاقانونیت ایک خطرناک اشاریہ... م۔افضل

ان حالات میں قانون کی لاقانونیت ایک سچائی بن جاتی ہے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اگر قانون کی حکمرانی پر سے ہمارا اعتماد ایک بار متزلزل ہوگیا تو پھر ان دونوں کو ایک نکتہ پر لانا بہت مشکل ہوجائے گا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

گزشتہ 22؍فروری کو یعنی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ سے ایک روز قبل اور اس وقت جب دہلی میں فساد برپا کرنے کی منصوبہ بندی تقریباً مکمل ہوچکی تھی دہلی میں ایک بین الاقوامی عدلیہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں صدرجمہوریہ، وزیراعظم نریندرمودی، چیف جسٹس ایس اے بوبڈے سمیت دوسری کئی اہم شخصیات نے شرکت کی تھی، اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہندوستان کی عوامی پالیسی کا بنیادی ستون ہے اور تمام چیلنجوں کے درمیان آئین کے تینوں ستون عدلیہ، مقننہ اور قانون سازیہ نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے توازن برقراررکھا ہے اور ملک کو مناسب راستہ دکھایا ہے۔

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہندوستان کے مختلف اداروں نے اس روایت کو مضبوطی دی ہے اور یہ دہائی ہندوستان سمیت دنیا کے تمام ملکوں میں تبدیلی کی دہائی ہے یہ تبدیلیاں سماجی، اقتصادی اور ٹیکنالوجی ہر محاذ پر ہوں گی مگر یہ تبدیلیاں منطقی اور انصاف پر مبنی ہونی چاہئیں اور سب کے مفاد میں بھی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت نے ایسے 15 سو قوانین منسوخ کر دیئے ہیں جو غیر موزوں ہوگئے تھے اور کچھ نئے قانون بھی بنائے ہیں وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایسے بڑے فیصلہ بھی آئے ہیں جن کو لے کر پوری دنیا میں بحث ہو رہی تھی اور طرح طرح کے خدشات کا اظہار بھی ہو رہا تھا مگر ہوا کیا؟ 130کروڑ ہندوستانیوں نے عدلیہ کے ان فیصلوں کو پوری رضامندی کے ساتھ قبول کرلیا۔

Published: undefined

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا کام یہ دیکھنا نہیں ہے کہ طاقت کس کے پاس ہے بلکہ ہمارا مقصد استحصال شدہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے اور یہ کہ فیصلہ دیتے وقت دنیا کے تمام جج سب کو انصاف دینے کے پابند ہوتے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے فیصلوں کو دنیا بھر کی عدالتوں میں مثال کے طور پر لیا گیا ہے۔

Published: undefined

غورطلب ہے کہ یہ وہی کانفرنس ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس ارون مشرا نے وزیراعظم کی قصیدہ خوانی کی تھی اور کہا تھا کہ وزیراعظم نریندرمودی ایک دوراندیش اورذہین شخص ہیں جو سوچتے توعالمی تناظرمیں ہیں مگر کام ایسے کرتے ہیں جس سے ملک کے عوام کو فائدہ پہنچے، اس کے لئے جسٹس ارون مشرا کی سخت تنقید بھی ہوئی تھی اور کہا گیا تھا کہ عدلیہ کے تعلق سے ہونے والی کانفرنس میں اس طرح کسی بھی شخصیت کی تعریف نہیں کی جاسکتی ہے اور وہ بھی کسی موجودہ جسٹس کی طرف سے، چنانچہ یہ بڑا سوال ہمارے ذہنوں میں فطری طور پر گردش کر رہا ہے کہ وزیراعظم اور چیف جسٹس نے اپنے خطبوں میں جو کچھ بھی کہا کیا وہ درست ہے؟

Published: undefined

کیا وزیراعظم کے بقول آئین کے تینوں ستون نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے توازن برقرار رکھا ہے اور کیا حالیہ دنوں میں عدلیہ کی طرف سے جو بڑے فیصلے آئے ہیں انہیں ملک کے تمام شہریوں نے رضامندی سے قبول کرلیا ہے؟ اور کیا آج کے تناظر میں چیف جسٹس کا یہ کہنا حق بجانب ہے کہ عدلیہ کا کام یہ دیکھنا نہیں ہے کہ طاقت میں کون ہے بلکہ اس کا کام محروم اور مجبور لوگوں کو بااختیار بنانا ہے؟ اور یہ کہ کیا فیصلہ دیتے وقت جج صاحبان انصاف کو ہی اولیت دیتے ہیں؟ آج کے حالات میں یہ سوالات بہت اہم ہوگئے ہیں۔

Published: undefined

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی تعمیرو ترقی اور امن واستحکام کے قیام کے لئے آئین کے تینوں ستونوں کے درمیان توازن کا برقرار رہنا اشد ضروری ہے اور اسی صورت عام شہریوں میں یہ یقین پیدا کیا جاسکتا ہے کہ تینوں ستون کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام کر رہے ہیں اور کسی بھی شہری کے ساتھ کسی طرح کی کوئی ناانصافی نہیں ہو رہی ہے مگر حالیہ چند برسوں کا اگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو نتیجہ اس کے برعکس ہی نکلتا ہے۔

Published: undefined

چیف جسٹس نے عدلیہ کے حوالہ سے جو کچھ کہا بالکل درست ہے عدلیہ ایک بااختیار ادارہ ہے آزادی کے بعد سے اب تک یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ انصاف سے محروم کیے گئے لوگوں نے جب بھی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے انہیں انصاف ملا ہے مگر افسوس پچھلے کچھ عرصہ سے عام شہریوں میں یہ احساس مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ قانون سازیہ کی طرف سے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی دانستہ کوششیں ہوئی ہیں ایسے کئی معاملے ہیں جن کا ازخود نوٹس لے کر اپنے دستوری اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے عدلیہ کو انصاف دینا چاہیے تھا مگر اس میں وہ عوام کی امیدوں پر پوری طرح کھری نہیں اترسکی ہے۔

Published: undefined

سی اے اے کے خلاف دائر عرضیاں ہوں یا اس کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف مرکز اور بعض ریاستی حکومتوں کا جارحانہ رویہ یا پھر پولس کی زیادتیاں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جس طرح کی بے اعتناعی برتی ہے اس سے لوگوں کے اذہان میں طرح طرح کے خدشات ابھرے ہیں جن کے ازلہ کی بظاہر کوئی صورت نظرنہیں آتی۔

Published: undefined

انسانی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیر صحیح خطوط پر کبھی نہیں چل سکتا لااینڈآرڈر برقرار رکھنے کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہوتی ہے اور انصاف کی فراہمی کا فریضہ عدلیہ انجام دیتی ہے میں یہاں انگریزی کے مشہورصحافی سنتوش دیسائی کے ایک مضمون کے کچھ حصوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جو انگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا کے 9مارچ کی اشاعت میں شائع ہوا ہے یہ مضمون انہوں نے آج کے حالات کے پس منظرمیں لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ پولس کا محکمہ نظم ونسق قائم رکھنے کے لئے ہوتا ہے اور اس کے لئے اسے بلا امتیاز کام کرنا ہوتا ہے مگر ہم پچھلے کچھ عرصہ سے دیکھ رہے ہیں کہ پولس خود امن وقانون کو درہم برہم کرکے مسائل پیدا کر رہی ہے ایسے کئی ویڈیوز سامنے آئے ہیں جن میں پولس کی زیادتیوں کا ثبوت موجود ہے، ایک ویڈیومیں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچھ مسلم نوجوانوں کو زمین پر لٹاکر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں اور ان سے قومی گیت گانے کو کہا جارہا ہے ان میں سے ایک بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔

Published: undefined

دیسائی آگے لکھتے ہیں کہ اسی طرح پولس ایک یونیورسٹی کی لائبریری میں گھس کر طلبا کو جارحانہ انداز میں نشانہ بناتی ہے پولس کے ایک گروپ کو اس یونیورسٹی اور دہلی کے دوسرے تشدد زدہ علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمرے توڑتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ پولس کی طرف سے پہلے بھی زیادتیاں ہوتی رہی ہیں لیکن اب وہ جس رویہ کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ بالکل نیا ہے وہ اب انتخاب کرکے اپنا نشانہ طے کرتی ہے، جے این یو معاملہ میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی جہاں دائیں بازو کے شرپسندوں کی تصویریں نہ صرف کیمروں میں قید ہیں بلکہ ان حملوں کا انہوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔

Published: undefined

دہلی فساد کے تناظر میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ خبریں بھی ہیں کہ جب این ڈی اے کی حلیف پارٹی کے ایک ممبرپارلیمنٹ نے پولس کو فون کیا تو اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا جبکہ دوسرے کئی معاملوں میں ہم پولس کو انتہائی سرگرم پاتے ہیں۔ دیسائی نے اعتراف کیا کہ بعض اوقات پولس مشکل حالات میں کام کرتی ہے اس پر حملے بھی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی پولس والے مر بھی جاتے ہیں اس طرح کے حالات میں اسے طاقت کا اپنی حدود میں رہتے ہوئے استعمال کرنے کی اجازت ہے مگر اس بنیاد پر انتقامی جذبہ سے ہوئی، پولس زیادتیوں کو درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا جو قانون توڑتا ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے مگر مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نہیں۔

Published: undefined

وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ پولس کا سیاست کا آلہ کار بن جانا سخت تشویش کا باعث ہے اور اس تشویش کا بہتر طور پر ازالہ عدلیہ کرسکتی ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے بعض اخبارات نے اپنے اداریوں میں یہ بات لکھی ہے کہ بعض معاملوں میں عدلیہ جس طرح کہ فیصلے دے رہی ہے یا پھر انہیں التوا میں ڈال رہی ہے اس سے اس کے رول پر ایک سوال کھڑا ہوگیا ہے، وہ ان جملوں پر اپنا مضمون ختم کرتے ہیں کہ ان حالات میں قانون کی لاقانونیت ایک سچائی بن جاتی ہے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اگر قانون کی حکمرانی پر سے ہمارا اعتماد ایک بار متزلزل ہوگیا توپھر ان دونوں کو ایک نکتہ پر لانا بہت مشکل ہوجائے گا۔

Published: undefined

سنتوش دیسائی نے جو کچھ لکھا ہے آج کی افسوسناک حقیقت وہی ہے ابھی دہلی فساد پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جب بحث ہوئی تو اپوزیشن نے پولس کے رول پر گہرے سوال کھڑے کیے مگر اس کا کوئی تسلی بخش جواب دینے کی جگہ بی جے پی کے ممبروں نے یکطرفہ طور پر پولس کی حمایت کی یہاں تک کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی پولس کی خوب ستائش کی اور اپوزیشن کو نصیحت کی کہ وہ پولس پر کوئی سوال نہ اٹھائیں، افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بی جے پی کی ایک خاتون ممبر نے اپنی پرجوش تقریر میں بعض ججوں کے رویہ کی کھل کر تنقید کی یہاں اس خاتون ممبر کا اشارہ ظاہر ہے ان ججوں کی طرف تھا جو آج کے حالات میں بھی لوگوں کو انصاف فراہم کرانا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں، تو کیا یہ سب ایک خطرناک اشاریہ نہیں ہے؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined